مچ گیلری

Journalism

Journalism

تحریر : روہیل اکبر

لاہور پریس کلب کی پہاڑی پر سینئر صحافی جناب چوہدری ذوالفقار کی سربراہی میں زندہ دل صحافیوں نے سخت سردی کے موسم میں آگ کا الاؤ جلا رکھا ہے اور وہاں پر بیٹھ کر سردی کا احساس رہتا ہے نہ ہی وقت کا کیونکہ بات سیاست کی ہو،صحافت کی ہو، فلمی ستاروں کی ہو،کھیل کی میدانوں کی ہو،سماجی ہو یا ذاتی ہو جب شروع ہوتی ہے تو پھر سبھی اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال ضرور کرتے ہیں اور اکثر یہاں پر گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرماگرم بحث ہوتی رہتی ہے یہ بحث برائے بحث نہیں ہوتی بلکہ بحث برائے اصلاح ہوتی ہے اس جگہ ہمارے جیسوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ بھی ملتا ہے یہاں پر سیاست،شوبز اورزندگی کے دوسرے ہم شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی آتی رہتی ہیں اور دنیابھر کی سیاست پر گفتگو ہوتی ہے۔

اکثر دوستوں نے اس جگہ کو مچ گیلری کا نام بھی دے رکھا ہے یہاں پر آنے والے تمام مہمانوں کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے پریس کلب کے الیکشن ہوئے تو جرنلسٹ پینل بھاری اکثریت سے جیت گیا ارشد انصاری ایک بار پھر صدر منتخب ہوگئے جبکہ بابر ڈوگر سیکریٹری بن گئے دونوں شخصیات اپنی مثال آپ ہیں الیکشن کی رات ماضی کی نامور فلمی ہیروئن اور پاکستان تحریک مساوات پارٹی کی سربراہ مسرت شاہین کلب تشریف لائیں تو انہیں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔

پوری رات انہوں نے صحافیوں کے ساتھ گپ شپ میں گذاری جسکے بعد انہیں ایک بار پھر آنے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے قبول کرلی اور گذشتہ رات مچ گیلری میں مسرت شاہین کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما میاں شمس اور پاکستان کے نامور قوال عزیز میاں کے ہونہار بیٹے اور فن قوالی کے شہنشاہ جنید عزیز میاں بھی ہمارے درمیان موجود تھے مسرت شاہین کے ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا ذکر نہ ہو تو یہ ناممکن ہے خاص کر پریس کلب کے سابق صدر اعظم چوہدری نے اس وقت مولانا کا ذکر چھیڑ دیا جب وہ ایک ٹی وی کو انٹرویو دے رہی تھیں بس پر کیا تھا مولانا صاحب کے متعلق سوال پوچھا جائے اور مسرت شاہین اس پر دلچسپ تبصرہ نہ کریں تو یہ بھی ناممکن بات ہے مسرت شاہین کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن بغیر ایک عظیم باپ کے بیٹے ہیں وہ جو بات کہتے ہیں وہ پوری کرتے ہیں مگر اسلام آباد دھرنہ کی باتیں وہ پوری نہ کرسکے بلکہ چوہدری برادران سے ملاقات کے بعدمولانا صاحب اپنا دھرنہ درمیان میں ہی چھوڑ کر چلے گئے۔

انکی چوہدری برادران سے کیا ڈیل ہوئی تھی وہ قوم کو بتائی جائے تاکہ سب کو معلوم ہوسکے کہ وزیراعظم ہاؤس پر جاکر گرفتار کرنے کی دھمکی پر عمل کیوں نہ ہوسکا جبکہ پیپلز پارٹی کے میاں شمس نے کہاکہ بلاول بھٹو زرداری کی ولولہ انگیز قیادت میں پیپلز پارٹی پنجاب میں مستحکم ہورہی ہے رات 11بجے سے شروع ہونے والی یہ سیاسی اور فلمی گفتگو تقریبا صبح 5بجے تک جاری رہی اس دوران جنید عزیز میاں نے اپنے والد کی مشہور قوالیاں بھی سنائی شملہ پہاڑی پر ہونے والی ایسی بارونق محفلوں سے جہاں سیاستدانوں اور صحافیوں کے درمیان اصلاحی بحث ہوتی ہے وہی پر صحافت کے طالبعلموں کو سیکھنے کا بھی بہت موقعہ ملتا ہے ویسے تو پریس کلب کے اندر بھی معروف اور نامور شخصیات کے ساتھ بھی پروگرام رکھے جاتے ہیں مگر جو کھل کر باتیں اس مچ گیلری میں ہوتی ہیں وہ کہیں اور ہو ہی نہیں سکتی یہاں پرموجود ہر صحافی اور سیاستدان کے پاس جدید کیمرے اور ویڈیوریکارڈنگ کے ہوتے ہوئے بھی تمام کی تمام گفتگو آف دی ریکارڈ ہوتی ہے۔

یہاں پر ایک فیملی کا سا ماحول ہوتا ہے دکھ بھی بانٹے جاتے ہیں اور خوشیاں بھی تقسیم ہوتی ہے اس گیلری میں میں صحافیوں کی خدمت پر مامور کنٹین سٹاف شجاعت اور بلال بھی کمال کے افراد ہیں جو ایک وقت میں 30چائے لانے میں بھی وقت نہیں لگاتے کیونکہ کنٹین اور مچ گیلری کے درمیان فاصلہ بھی اچھا خاصہ ہے یہاں پر بیٹھنے والا ہر صحافی انتہائی شریف النفس ہونے کے ساتھ ساتھ خود دار بھی ہے خاص کر یہاں پر آنے والے فوٹوگرافرز بھی بڑی مزے کی گفتگو کرتے ہیں جن کے پاس ہر شخص کی خبر ہوتی ہے آج سے کچھ عرصہ قبل ہمارے فوٹوگرافرز کو ہی رپورٹر سمجھا جاتا تھا بلکہ ہمارے دیہاتی علاقوں میں لوگ اب بھی کیمرہ مین کو ہی رپورٹر سمجھتے ہیں اور اس بات کا تجربہ بخوبی سبھی کو ہوگا مگرلاہور پریس کلب کی اس مچ گیلری میں سبھی ایک ہوتے ہیں اور اپنے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کھلے دل سے کرتے ہیں۔

انہیں سننے والے بھی کھلے دل سے سنتے ہیں ویسے تو ہر کلب میں ہونے والی محفلیں لاجواب ہوتی ہونگی مگر لاہور پریس کلب کی یہ محفلیں اس لحاظ سے نرالی ہیں کہ یہاں پر منافقت نہیں ہوتی ایک دوسرے کے لیے بغض نہیں ہوتا اور خاص کر کسی کے اٹھ کر جانے کے بعد اسکی پیٹھ کے پیچھے اسکی برائی نہیں کی جاتی بلکہ یہاں پر ایک دوسرے کی اچھائیاں دوستوں کو بتائی جاتی ہیں لاہور پریس کلب کی اس مچ گیلری کی ایک اور خاص بات کہ یہاں پر کسی کو کسی سے لالچ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے جذبہ خدمت موجود ہوتا ہے بڑوں کو عزت دی جاتی ہے چھوٹوں کو پیار ملتا ہے یہی باتیں اس کلب کی شان بڑھاتی ہیں اور ہماری آن بڑھاتی ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر