زندگی خوبصورت ہے!

Life

Life

زندگی خوبصورت ہے غور کریں تو آپ اس سے اختلاف نہیں کر سکتے کہ ہماری زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ زندگی خوشیوں سے بھری پڑی ہے ۔آپ کہیں گے یہ میں کیا کہہ رہا ہوں ،میں نے کہا ہے ذر ا غور کریں تو ۔۔بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو سارے گھر والے کتنے خوش ہوتے ہیں ماں ،باپ کے علاوہ دیگر رشتے دار بھی جن میں بچے کی دادی ،دادا،بہن بھائی ،تایا خالہ ،پھوپھو ۔وغیرہ سب کو خوشی ہوتی ہے مبارک باد دی جاتی ہے ۔یہ لمحات کتنے خوشی کے ہوتے ہیں پھر بچے کے عقیقے ہوئے خوشی ،بچہ نے گھٹنوں کے بل چلنا شروع کیا تو سارا گھر نہال ہو گیا خوشیوں سے ،لو جی اب اس نے آج امی کہا توتلی زبان سے اب تو ماں کے ساتھ ساتھ باقی سب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے ،اب بچہ بولنے لگا خوشی ہوئی ،اب اس کی عمر پانچ سال ہو گئی تو اس کو خوشی کے ساتھ سکول داخل کروایا گیا کتنی خوشی کے لمحات ہیں الفاظ میں بیان ممکن نہیں ہے

بچہ رفتہ رفتہ بڑا ہوتا رہا اس نے قرآن پاک مکمل پڑھ لیا خوشی سے پھولے نہ سمائے سارے گھر والے ،اب بچے نے میٹرک کر لیا تو بھی خوشی ،ایف اے ۔بی اے کرنے کی خوشی کے بعد نوکری لگ گیا اب بچہ بچہ نہ رہا بلکہ بھرپور جوان ہو گیا اس کی شادی کر دی گئی شادی کے لفظی معنی ہی خوشی کے ہیں اس میں ساری برادری ،اور دوست شریک ہوئے شادی صرف دو انسانوں کے ملاپ کا ہی نام نہیںبلکہ یہ دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے ، ساری زندگی خوشی میں گزر جاتی ہے اس آدمی کے اولاد ہوئی اور اسی طرح خوشیوںکا سارا چکر دوبارہ چل پڑتا ہے ، انسان دنیا میں تنہا ضرور آتا ہے مگر پیدائش کے اگلے ہی لمحے بہت سارے خونی رشتے اس سے جڑ جاتے ہیں اس کے والدین ، دادا، دادی ، نانا، نانی ، بہن بھائی ، چچا، ماموں، کزن وغیرہ، یہ سب خون کے رشتے ہیں اور ان خونی رشتوں کی جھلک بھی اس بچے میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے

مثلا آواز، چہرے کے نقوش، عادات، رویہ، پسند نا پسند وغیرہ اپنے خاندان کے کسی نہ کسی فرد سے ضرور ملتی جلتی ہوتی ہیں، مگر ان خوشیوں کو ہماری ضد ،انا اور سب سے بڑھ کر تکبر غموں میں بدل دیتا ہے ،ایسا لگتا ہے جیسے زندگی میں غم ہی ہوں ۔ تکبر کے سبب امیر اپنے غریب رشتہ داروں کو حقیر خیال کرتے ہیں ان سے تعلقات ختم کر لیتے ہیں ۔
جیسے دو برتن آپس میں بجتے ہیں ، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اسی طرح دو افراد کے درمیان تنازعات لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں، اب ایک اکیلا آدمی تو اپنے آپ سے لڑنے سے رہا ، رشتے قائم کرنا اور انہیں برقرار رکھنا اگرچہ مشکل کام ہے مگر ناممکن بھی ہرگز نہیں، رشتوں کے معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے

قدم قدم پر سمجھوتوں اور قربانیوں سے واسطہ پڑتا ہے، تحمل برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنے والے لوگ رشتوں کو قائم رکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں تاہم رائے یا فیصلے سے اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں جب اختلاف کومخالفت بنا لیا جائے تو اس کے نتیجے میں بحث اور جھگڑے بھی جنم لیتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتیں اکثر بڑھ جاتی ہیں اس موقع پر سمجھداری اور عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ان اختلافات اور تنازعات کے باوجود رشتوں پر کوئی آنچ نہ آنے دی جائے اور بحث و مباحثے میں رشتوں کا تقدس پامال نہ ہونے پائے ، رشتوں کو سہارا دینے اور انہیں برقرار رکھنے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی شائد پہلے کبھی نہ تھی، خونی رشتوں میں جنہیں اٹوٹ سمجھا جاتا تھا اب ان میں دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں، بہت سے خاندان مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں،
بقول شاعر رفتہ رفتہ ٹکڑوں میں بٹ گئے ۔۔۔آدمی جو تھے ایک خاندان کے

اس دور جدید میں مادہ پرستی نے ہمیں اپنوں سے دور کر دیا ہے، حقیقی خوشی اپنوں سے دور رہ کر کبھی نہیں ملتی، ذراتصور کریں کہ ایک آدمی کے پاس بے شمار دولت ہو عالی شان محل نما گھر ہو، نوکر چاکر ، کار غرض کہ اسے ضرورت کی ہر شے حاصل ہو مگر کوئی اس کا اپنا نہ ہو وہ تنہا اور اکیلا ہو تو کیا وہ خوش رہ سکے گا ؟۔ اگرچہ وہ دنیا میں تنہا آتا ہے اور تنہا ہی چلا جاتا ہے مگر اس آنے اور جانے کے درمیان اسے اپنے ہی جیسے انسانوں کی محبت ، خلوص، اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے، اچھے اور برے وقت میں خاندان والے ہی ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اپنے کسی عزیز رشتہ دار کی خوشی یا کامیابی پر اسے مبارکباد دینے کے چند الفاظ اس کی خوشیوں میں کئی گنا اضافے کا سبب بھی بن سکتے ہیں اسی طرح اس کے کسی غم یا صدمے پر اظہار افسوس میں کہے جانے والے الفاظ اس کے غم کے اثر کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

Heaven

Heaven

اگر ہم انسان ایک حقیت کو ہمیشہ خیال میں رکھیں کہ یہ دنیا فانی ہے یہاں سے کچھ ساتھ نہیں لے جانا صرف اعمال ساتھ جائیں گے تو یہ زندگی جنت بن سکتی ہے گل گلزار بن سکتی ہے ۔زندگی خوبصورت ہے اسے ہم خود بد صورت بناتے ہیں دوسروں کا برا چاہ کر ،حسد کر کے،خود کو اعلی ثابت کرنے کے چکر میں ،اپنی میں کے لیے اس سے دوسرے تو پریشان ہوتے ہی ہیں ہم خود بھی خوش نہیں رہ سکتے ،جیسے ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے

اسی اصول کے تحت دوسروں کو خوشیاں دیں آپ کو خوشیاں ملیں گئیںمگر بعض اوقات ان باتوں پر دوسروں کے رد عمل کی وجہ سے عمل کرنا ممکن نہیں ہوتا تو خاموشی سے ایسے افراد سے الگ ہو جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ آئیں آج سے ہم سب ایک دوسرے کو معاف کردیںآج سے ہی خوشیاں ہماری زندگی میں لوٹ آئیں گیں ۔زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں ان سے خوش ہونا چاہیے ۔ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہو کر خوش ہوں ۔ دوسروں کی اللہ کی خوشنودی کے لیے مدد کر کے دلی خوشی ملتی ہے اور اس سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے ۔

Sardar Akhtar Chaudhry

Sardar Akhtar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری کسووال