زندگی کا سب سے خوبصورت منظر

House

House

تحریر : محمد اکرم اعوان
جنگل میں ایک خیمہ نصب تھا، جس کے پاس ایک شخص پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا۔ وہاں سے گزرنے والا ایک اور شخص یہ آواز سن کر قریب آیااور سلام کے بعد دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ خیمہ میں اس شخص کی بیوی ہے اور بچے کی پیدائش کا وقت قریب ہے اور کوئی دوسری عورت بھی مدد کے لئے پاس نہیں۔ وہ شخص گھر جاکر اپنی اہلیہ کولے آیا اوراس آدمی کی اجازت کے بعداپنی اہلیہ کو خیمے کے اندر بھیج دیا۔کچھ دیر بعد خیمہ سے آواز آتی ہے :امیر المومنین ان صاحب کوبیٹا ہونے کی مبارکباد دے دیجئے”امیرالمومنین کا نام سن کر وہ شخص کانپنے لگا”امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا گھبراؤ مت۔ کل صبح دربار خلافت میں آنا، میں بچے کا وظیفہ مقرر کردوں گا” ہے کوئی حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑی شان،رعب ،دبدبہ اور طاقت والا، ان سے بڑا انصاف والا، ان سے بڑا اپنی رعایا کا خیرخواہ ،ہمدرد اوران سے بڑی عزت والا۔

جن کے نزدیک سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا اور خوشنودی تھی۔جن کی نیکیوں کے سامنے آسمان کے ستارے بھی کم تھے ۔جنہیں دُنیامیں اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا پروانہ عطا کردیا گیا۔مگر پھربھی آخرت اوریوم ِحساب کا خوف دامن گیررہتا۔ آج ہم نے دُنیا ا ور دُنیاوی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔دُنیا کے لالچ نے ہمیں اندھا کردیا ہے اورہم نے رات دن حصولِ دُنیا میں اپنے آپ کو غرق کردیا ہے۔آج دولت ، شہرت ،عزت ،آسائشوں کا حصول ہی ہماری منزل مقصود ٹھہری اورہم اللہ کی رضا کی طلب اور دین کی راہ سے ہٹ گئے۔جس کے ہم سبب پریشانی، ناکامی، بربادی اور بدامنی کا شکار ہیں۔ انسان کی راہنمائی اور اصل کامیابی کا راستہ دکھانے والی سچی کتاب میں اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے۔

ترجمہ۔ جان رکھوکہ دُنیاکی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت(وآرائش) اور تمھارے آپس میں فخر(وستائش) اور مال و دولت کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب( وخواہش)ہے۔( اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ ( اس سے کھیتی اُگتی اور)کسانوں کوکھیتی بھلی لگتی ہے پھروہ خوب زورپر آتی ہے پھر(اے دیکھنے والے)تواس کودیکھتاہے کہ( پک کر) زرد پڑجاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اورآخرت میں(کافروں کے لئے)عذاب شدید اور(مومنوں کے لئے) خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دُنیا کی زندگی تو متاع ِفریب ہے۔ سورة حدید، آیت 20 اِنسان فطری طور پر بیشمار منفی و مثبت سوچ وفکر اور جذبات و احساسات رکھتا ہے۔پھر شدت جذبات انسان کے اندر شدت ِخواہش کا محرک بنتی ہے ۔ہرانسان اپنی جائز وناجائزخواہشات کی تکمیل چاہتا ہے ۔انسانی خواہش کے بارے میں کہاجاتا ہے۔ اگر اسے مال و دولت سے بھرا ایک پورا جنگل مل جائے تو انسان خواہش کرے گا کہ کا ش ایک جنگل اور مل جاتا۔پھرزندگی کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی خواہشیں مزید بڑھتی جاتی ہیں یہاں تک کہ اس خاکی کا خاک میں مل کر خاک ہوجانے کا وقت قریب آجاتا ہے مگر خواہشیں پھر بھی باقی رہتی ہیں۔ ترجمہ :- جو لوگ بس اسی دُنیا کی زندگی اور اس کی رونق چاہتے ہیں تو ہم ان لوگوں کوان کے اعمال(کی جزا)اسی(دنیا) میں پوری طرح دے دیتے ہیں۔ اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ آخرت میں ان کیلئے آگ کے سوا کچھ نہیں۔( وہاں انہیں معلوم ہوجائے گاکہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا تھا وہ سب ناکارہ ہوگیااور جوکچھ وہ کررہے ہیں وہ بے اثر ہے۔ (سورة ہود ،آیت نمبر 16,15)۔

ALLAH

ALLAH

جہاں انسان ہوں گے وہاں اُن کی لامحدود خواہشات ہوں گی،جو جرم ، گناہ اور انسانی معاشرہ کی تباہی اور بگاڑ کا سبب بنیں گی۔ معاشرے کی فلاح اور حد سے تجاوز کردہ انسانی خواہشات کو کنڑول کرنے کے قوانین اور ادارے بنائے جاتے ہیں۔ قوانین اور ضابطے معاشرہ میں اچھائی اور بہتری کے لئے بنائے جاتے ہیں مگر ان قوانین کی افادیت اُسی وقت ممکن ہے، جب ان کا اطلاق ملک اور معاشرہ کے ہر باشندہ پر برابری اور مساوات کی سطح پر ہو۔بنیادی طور پر ادارے سب اچھے ہوتے ہیں اور عوام کی فلاح اور بہتری کے لئے بنائے جاتے ہیں۔لیکن اداروں کی کارکردگی اور نتائج کا انحصار ان میں تعینات افراد کی قابلیت اوراہلیت پرہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہرانسان جوابدہ ہے۔ اپنی زندگی ، معاملات ،متعلقین،اختیارات اور ان اختیارات کے استعمال بارے میں۔قابلیت اور اہلیت کے بجائے عدم مساوات ،ذاتی پسند، ناپسنداور اقرباء پروری کی بنیاد پربھتیجوں ، بھانجوں کی بھرتیاں کی جائیں۔ مختلف حیلوں اور بہانوں سے قریبی رشتہ داروں کونوازا جائے۔تو اس کا حتمی نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ جس کا سامنا آج پوری قوم کررہی ہے۔ چونکہ افراد کا چناؤ اہلیت اور قابلیت کی بجائے قریبی رشتہ داری اور تعلق کی بنیاد پرکیا جاتا ہے اور بالآخر یہی نااہلیت ہردورکے حکمرانوں کے لئے دُشواری، ناکامی اور بدنامی کاسبب بنتی ہے۔پھر کسی بڑے سے بڑے حادثہ کی ذمہ داری اور ناکامی قبول کرنے کی بجائے ادارے اور افراد ایک دوسرے کومورد الزام ٹھہراتے نظرآتے ہیں۔ آج ہماری اور ہمارے حکمرانوں کی لامحدود خواہشات پورے معاشرے کی تباہی اور بربادی کا سبب بن چکی ہیں۔عزت محفوظ نہ ہی جان ومال،حالات سے تنگ، غربت اور بے روزگاری سے عاجز، غریب اور بے بس انسان اپنی اوربچوں کی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔بے شک یہ تباہی و بربادی ، بدامنی اور بے سکونی ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ۔ترجمہ -:خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تا کہ اللہ ان کوبعض اعمال کا مزہ چکھائے۔ عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔( سورة روم ، آیت نمبر41)۔

اللہ رب العزت کی رضا، احکامات الہٰی کی بجاآوری اورخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺکی محبت اور اتباع کا بہترین نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کی حیات مبارکہ ہے۔ جس کی برکت سے اللہ پاک نے حضرات ِصحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کوآخرت کی کامرانی کے ساتھ ساتھ دُنیا میں بادشاہت اور کامیابی عطاء فرمائی۔ضروری ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کریں، اللہ کی رضا کے لئے مکمل طور پر دین ِاسلام پر عمل پیرا ہوں۔ بے شک صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کی زندگی عام انسان سے حکمرانوں تک کے لئے بہترین مثال ہے۔ایک صاحب دین نے بجا فرمایاکہ”۔۔۔زندگی کا سب سے خوبصورت منظر یہ ہے ۔۔۔،کہ اپنے پاک اللہ کو پالینا،دنیاوی عہدوں،شہرت ،دولت کی کامیابیوں کے یقین کو دل سے نکال کرسب کچھ اللہ سے ہونے کے یقین کو دل میں اُتار لینا ہی اصل کامیابی ہی”۔

Muhammad Akram Awan

Muhammad Akram Awan

تحریر : محمد اکرم اعوان