زندگی کا سفر ایک نازک پل صراط ہے جسے ہر زی روح نے طے کر نا ہے سکندر چنگیز خان اور تیمور لنگ نے زندگی گھوڑے کی پیٹھ پر گزاری بادشاہان وقت مسندِ اقتدار کے پایوں سے لپٹے رہے دیو جانس کلبی ایک ہی ٹب میں مراقب رہا منصور اور سرمد نے تلوار کی دھار پرچل کرموت کو گلے لگایا رانجھا و نجھلی کی تان میں مست رہا مجنوں نے صحرا نو ردی میں زندگی بتا دی سائنسدان لیبارٹریوں کے اسیرہو کررہ گئے سیاستدان کو چہ اقتدار کی راہداریوں کے میراثی بنے رہے قلم کاروں نے سارا فن لیڈروں کی مدح سرائی میں غرق کر دیا جس دن سے پہلا انسان اِس دھرتی پر اترا اس دن سے چل چلا کی ریت شروع ہو گئی خدا کا پیغمبر ہو یا فاتح زمانہ سب کو موت کی گھا ٹی کو عبور کر نا ہے جہاں پنا ہ اور فقیر دونوں ایک ہی منزل کے راہی بنے کو ئی پھولوں کی سیج سے ہو کر وہاں پہنچا تو کو ئی خا ک چھانتا ہوا وہاں آکر ساری عمر ریشمی لباس کے دیوانے یا چیتھڑوں میں لپٹے ہو ئے دونوں کے حصے میں دو گز سفید لٹھا آیا کسی پنجابی شاعر نے کیا خو ب کہا ہے۔
ملک عدم توں ننگے پنڈے اِس جہانے اوندااے بندہ اک کفن دی خاطر کناں پینڈا کر دا اے
تاریخ انسانی بادشاہوں اور شاہ نوازوں سے بھری پڑی ہے ہر دور میں ایسے نیک انسان کہ فرشتے رشک کریں اور ایسے سیاہ کار کہ شیطان بھی پناہ مانگے ۔ کروڑوں انسانوں کے ہجوم میں چند ہی ایسے افراد ہو تے ہیں جن کو تاریخ تلاش کر تی ہے جو تاریخ کے چہرے کو ضیا بخشتے ہیں گاجر مولی کی طرح انسان کٹتے مرتے رہتے ہیں لیکن ان انسانوں میں چند ہی ایسے ہو تے ہیں جو جریدہ عالم پر ثبت رہتے ہیں انسانوں کے اِس ہجوم میں کچھ ایسے انسان بھی دھرتی پر اس شان سے طلوع ہوتے ہیں جن کا مقصد زندگی معرفت عشق الہی خدا اور اس کی خدمت ہوتا ہے یہ عظیم نفوسِ قدسیہ خدا کے عشق کے بعد اس کی مخلوق کی خدمت زند گی کا مشن بنا لیتے ہیں ۔ کروڑوں آنکھیں اِن سے روشنی اور ٹھنڈک پا تی ہیں کروڑوں کا ن ان کی ریشمی با تیں سننے کو ترستے ہیں یہ لو گ کسی خاص قبیلے شہر یا ملک کے فرد نہیں ہو تے بلکہ زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ اور انسانیت کا وقار ہو تے ہیں دھرتی اور انسانیت صدیوں ایسے انسانوں کا انتظار کر تی ہیں خو ش قسمت ہو تا ہے وہ زمانہ اور علاقہ جہاں قدرت اِیسے انسانوں کو عطیے کے طور پر اتارتی ہے اور پھر سزا کے طو رپر واپس لے لیتی ہے۔
ایسا ہی تحفہ عظیم عطیہ قدرت نے سرزمین ہند اجمیر شریف میں اتارا جنہیں دنیا غریب نواز کے نام سے جانتی ہے بہت سارے لوگ آپ کو غریب نواز کے نام سے ہی جانتے ہیں آپ کی غریب نوازی کا رنگ اتنا گہرا ہے کہ بلا امتیاز مذہب سب پر خوب چڑھا حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جنہیں عطائے رسول نائب رسول خواجہ خواجگاں بھی کہا جاتاہے آپ کرہ ارضی کی سب سے زیادہ متا ثر کر نے والی شخصیت ہیں جنہوں نے خون کا ایک قطرہ بہا ئے بغیر اپنی وراثت میں پچاس کروڑ مسلمانوں کو چھوڑا ہندوستان کی پوری تاریخ میں غریبوں سے محبت والا شاید ہی کو ئی ہو جس نے آپ کی طرح غریبوں مسکینوں کی مسیحائی کی ہو آپ کی ذات سے پھوٹنے والی کرنوں نے دشمنوں کے قلوب بھی فتح کر لئے کو چہ تصوف کے کسی اور بزرگ کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے کہ مسلمانوں کے علا وہ غیر مسلم بھی آپ کے ہی سایہ شفقت میں پنا ہ لیتے ہیں آپ کے در اقدس پر آنے والے غیر مسلموں کا ریکارڈ اگر اکٹھا کیا جا ئے توخو شگوار حیرت ہو تی ہے کروڑوں جھوٹے خداں کے پجاری ہندواپنے دیوتاں سے مایوس ہو کر در خواجہ کی چوکھٹ پر سر نیاز جھکا کر دامن مراد بھر کر چلے جاتے ہیں۔
آپ کا درمسلمانوں اور ہندوں کے لیے عام کھلا ہے آپ کا مزارپرانوارواحد دربار ہے جہاں غریب فقیر کے سا تھ سادھو جو گی اور با دشاہ وقت بھی سرجھکا ئے کھڑا ہو تا ہے بلکہ درخواجہ پر سرجھکا نا اپنے لیے سعادت عظیم سمجھتے ہیں ہندوستان کے چپے چپے سے نان مسلموں کے قافلے در خواجہ پر آتے ہیں گلاب کی چادریں چڑھاتے ہیں در خواجہ کی خاک اپنی پیشانیوں پر ملتے ہیں الٹے قدموں واپس جاتے ہیں جیسے حقیقی سلطان الہند کے در پر آتے ہیں پڑھا لکھا ہندو اچھی طرح جانتا ہے کہ ہندو کی آن بان شان پرتھوی راج کو خواجہ پاک کی بد دعا سے ہی شکست ہو ئی تھی ہندوں کے قلعے میں شگاف خواجہ جی نے ہی ڈالا تھا لیکن پھر بھی ہندو تاریخ کو فراموش کر کے سلطان الہند کے در پر ہی آتے ہیں اِس کی ایک ہی وجہ ہے خواجہ پاک نے پسے ہو ئے انسانوں سے حقیقی محبت کی ہے اجمیر میں ایک طرف در خواجہ ہے جو ہر وقت پروانوں غلاموں سے بھرا رہتا ہے دوسری طرف پر تھوی راج کا قلعہ جہاں سناٹوں کا راج ہے کو ئی بھو لے سے بھی ادھر نہیں جاتا۔مجھ فقیر کو بھی درخواجہ پر حاضری کی سعادت ہو ئی جہاں احقیر نے بادشاہوں شہرت کے آسمانوں پر چمکتے اداکاروں اکابرین کو فقیروں کی طرح گریہ زاری کر تے دیکھا ہے ان کی لا زوال شہرت اور محبت کی ایک ہی وجہ ہے حق تعالی اور اس کی مخلوق سے حقیقی محبت مخلوق کا درد آخرت کا خوف یہی وہ جذبہ تھا جو خالقِ کائنات نے آپ کوکن فیکون کا مقام اور سیف زبانی عطا کی تھی۔
آپ کے لب مبارک سے جو نکلا وہ تقدیر بنا آپ کی جنبش چشم سے سیاہ کاروں کا شمار ولیوں میں ہوا آپ کے مرید خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی آپ کی کرامت بیان کر تے ہیں ایک دن پروانوں میں جلوہ افروز تھے کہ ایک دولت مندشرابی ہندو کا وہاں سے گزر ہواجیسے ہی وہ آ پ کے سامنے آیا تو سراپا ادب و احترام رک گیا دونوں ہاتھ احتراما جو ڑ کر سلام پیش کیا اور کہا شہنشا ہ میرا سلام قبول کر یں آپ کے قدموں کی خاک کو بوسہ دینا چاہتا ہوں مگر اپنے گناہوں کیوجہ سے جرات نہیں ہے میرا سلام قبو ل فرمائیں پھر لڑکھڑاتا ہوا چلا گیا شہنشاہ دلنواز تبسم سے بو لے اِس شخص کو غور سے دیکھواللہ کا دوست جا رہا ہے حاضرین حیرت سے سن رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے ہندوشخص شرابی کبابی بد کردار انسان ہے دن رات شراب اور عیا شی میں غرق رہتا ہے چند دن بعد پھر وہی ہندو جوان نشے میں دھت وہاں سے گزرا سر جھکا کر غلاموں کی طرح کھڑا ہو گیا سلام کیا اور کہا شہنشاہ میں جانتا ہوں گنا ہ گار ناپاک ہوں اِدھر اپنا ناپاک جسم نہیں لانا چاہتا لیکن کو ئی نادیدہ قوت ہے جو مجھے اِدھر کھینچ لا تی ہے میری گستاخی معاف کی جا ئے پھر وہ جھومتا ہوا وہاں سے چلا گیا شہنشاہ اجمیر پھر مسکرائے اور بو لے اللہ کے دوست کو دیکھ لو جو صاحب نعمت ہو گا اللہ کا اِس پر خاص کرم ہو گا۔
چند دن بعد پھر وہ شخص غلاموں کی طرح ہا تھ باندھے کھڑا تھا شاہا مجھے معاف کر یں میں بھاگنے کی بہت کو شش کر رہا ہوں لیکن کو ئی چیز مجھے کھینچ کر آپ کے در پر لے آتی ہے وہ پھر چلا گیا تو حضرت خواجہ جی شفیق لہجے میں بو لے میری بات لوگوں کو اچھی نہیں لگتی لیکن یہ ہزار بار بھی آئے گا تو میں یہی کہوں گا کہ یہ اللہ کا دوست ہے اب ایک شخص اٹھا اور بو لا سرکا ر آپ جو بھی کہتے ہیں سچ ہے لیکن یہ شخص بد کردار شراب نوش سیاہ کار ہے تو شاہ چشت بو لے میں اس کی شراب نوشی سے واقف ہوں مگر تم لوگ شان رحمت سے واقف نہیں ہو جو اس پر برسنے والی ہے پھر ابر رحمت اس سیا ہ کار پر برس پڑا لوگوں نے دیکھا وہ سر جھکا ئے غلاموں کی طرح خانقاہ ِ چشت میں داخل ہوا آج خلا ف معمول اس کے قدموں میں ہلکی سی بھی لرزش نہیں تھی آج وہ پورے ہوش میں تھا۔
حاضرین مجلس اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ شاہ دلنواز بو لے وہ دیکھو اللہ کا دوست آگیا پھر وہ ہندو لپک کر مسیحا چشت کے قدموں سے لپٹ گیا بو سے لیتے ہوا بو لا میرے ما لک غلام حاضر ہے میں نے پو ری کو شش کی بھا گنے کی لیکن میری سوچ خوابوں پر آپ کی ہی حکومت ہے مجھے اپنے در کی غلامی عطا کریں درباری بنا لیں آپ کے قدموں کی خاک میرے لیے تاج شاہی ہے شاہ دلنواز نے اٹھا یا گلے سے لگا یا اور ہندو کی زبان سے کلمہ حق جاری کر دیا پھر اس نے شراب کے برتن توڑ دئیے ساری دولت بندگان خدا میں بانٹ دی اور کہا شاہ اجمیر کی گدائی ہی میری دولت ہے نور اسلام باطن تک اتر گیا دن رات غلاموں کی طرح خواجہ جی کے اطراف میں رہتا خواجہ پاک آرام کا کہتے تو کہتا آپ کا دیدار ہی میرا آرام ہے آپ کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں پتھرا جائیں یہی میری پہلی اور آخری خواہش ہے پھر نگاہِ درویش نے اسے اکسیر بنا دیا اسے وہ نگا ہ عطا ہو ئی کہ جسے دیکھ لیتا اسے لو ہے سے سونے میں بد ل دیتا دن رات مر شد کی خدمت عبادت مجا ہدے میں گزاریں کثافت لطافت میں بدلی پھر اہل اجمیر نے اسے صاحب نعمت ہو تے دیکھا نظر بھر کر جسے بھی دیکھ اسے نور حق سے نہلا دیا شہنشاہ ِ اجمیر غریب نواز نے ہزاروں ایسے سیاہ کا روں کو نیکو کاروں میں شامل کیا اِس لیے آپ کو بندہ غریب نواز کہا جاتا ہے۔