جھوٹ پر مبنی معاشرہ کی ہلاکت خیزیاں

Society

Society

تحریر : محمد آصف اقبال

انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ جس چیز سے ڈرتا ہے اس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا ہے یعنی اس کی ہر صحیح و غلط بات کو بے چوں و چرا تسلیم کر لیتا ہے۔ اسی ڈر اور خوف کی حقیقت سے واقفیت رکھنے والے فی زمانہ ظالم افراد،گروہ اور نظریات کے حاملین فائدہ اٹھاتے آئے ہیں۔برخلاف اس کے ڈر و خوف سے نجات پاچکے افراد ظالمین کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہے ہیں ۔پھر جب وہ اُنہیں لالچ میں مبتلا کرنے ،ڈر و خوف پیداکرنے اورہر طرح کا حربہ استعمال کرنے کے باوجود ناکام ہوجاتے ہیںتو وہ ان پر ظلم کرتے ہیں،کچلنے،تباہ وبرباد کرنے اور فنا کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔یہ بات تاریخ انسانی سے بھی ثابت ہے کہ ظالمین نے اختلاف رائے رکھنے والوں پر کس کس دور میں کون کون سے طریقے اختیار کیے اور کس طرح بربریت کا ننگا ناچ کھیلا،عام انسانوں پر ظلم و زیادتیاں کیں،لوگوں کی زبانوں پر قفل چڑھائے، جھوٹ کو مشتہر کیا اور حق یا سچائی پر پردے ڈالے،روشنی سے انسانوں کو محروم کیا اور اندھیرے میںجینے پر مجبور کیاہے۔اس سب کے باوجود سچائی زیادہ دیر چھپی نہیں رہی،حق کو دبایا نہیںجا سکا،آخر کار باطل کو شکست ہوئی اور وہ نامراد ہوا۔

سچ اور جھوٹ کے سلسلے میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم پر سچ بولنا لازم ہے، کیونکہ سچ بولنا نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ اور انسان لگاتار سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم لوگ جھوٹ بولنے سے بچو، کیونکہ جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کا راستہ دکھاتی ہے، اور انسان لگاتار جھوٹ بولتا رہتا ہے، جھوٹ بولنے کا متمنی رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے”(صحیح مسلم)۔اس حدیث میں انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر ہدایت کی گئی ہے کہ سچ بولیں، سچ کو فروغ دیں، سچ کی تشہیر کریں برخلاف اس کے جھوٹ سے پرہیز کریں، جھوٹ کے فروغ میں حصہ دار نہ بنیں اور جھوٹ کی تشہیر سے شعوری طور پر پرہیز کریں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جھوٹ کی تشہیر سے شعوری طور پر ایک فرد کیسے پرہیز کرسکتا ہے جبکہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ فلاں بات سچی ہے یا جھوٹی؟اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی فرماتا ہے ،کہا کہ: “اے لوگوں جو ایمان لائے ہو،اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو”(الحجرات:٦)۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مرتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو، یعنی جس کا ظاہر حال ی بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے، تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ جھوٹ کوئی اچھے چیز نہیں ہے۔ اس کے بے شمار منفی نتائج انسان کی نفسیات،مزاج اور عمل پر مرتب ہوتے ہیں۔اس کے باوجود ہم جھوٹ سے پرہیز نہیں کرتے، ہماری یہ صورتحال حد درجہ افسوس ناک ہے۔جھوٹ بولنے سے انسان باطنی طور پر کھوکھلا ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ جھوٹ سے انسان اپنے کردار کی مضبوطی کھو دیتا ہے۔بعض لوگ مذاق میں جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذاق میں جھوٹ بولنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ احادیث مبارکہ میں مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ مزاح کی حس قابل تعریف ہے، لیکن اس میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ بعض لوگ مسکراہٹ کی آڑ میں جھوٹ بولتے ہیں کہ مسکراہٹ ان کے جھوٹ پر پردہ ڈال دے گی، لیکن اللہ تعالیٰ جو کچھ سینوں میں ہے، اس کو بھی جاننے والا ہے۔

مزاح میں جھوٹ بولنے کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : “ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے اپنے بیان میں جھوٹ بولے۔ ہلاکت ہے اُس کے لیے، ہلاکت ہے اُس کے لیے”(سنن ترمذی و ابوداؤد)۔حضرت عمر فرماتے ہیں کہ مجھے اطلاع ملی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، اس وحشت ناک خبر کو سن کر میں اپنے گھر سے چل کر مسجد میں گیا، کچھ دیر وہاں توقف کیا تو کچھ لوگ وہاں بھی یہی باتیں کر رہے تھے یہ دیکھ کرمیں نے سوچا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہیے، میں اجازت لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا یا رسول اللہ! کیا حضور نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،نہیں۔ میں نے تعجب سے کہا: اللہ اکبر اور پھر مسجد کے دروازے پر آکر بلند آواز سے ندا کر دی کہ یہ خبر غلط ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو طلاق نہیں دی۔

اس واقعہ میں جس طریقہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا ٹھیک یہی طریقہ ہم سب کا بھی ہونا چاہیے۔اس کے برخلاف عمل کے نتیجہ میںہم خود جھوٹ کو فروغ دینے والوں میں شامل ہو جائیں گے،جوکسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔وہیں یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے،لہذا کسی بات کا قلم سے لکھنا ٹھیک وہی حکم رکھتاہے جو زبان سے کہنے کاہے۔جس بات کا زبان سے ادا کرنا ثواب ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی ثواب ہے اور جس کا بولنا گناہ ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی گناہ ہے۔بلکہ لکھنے کی صورت میں ثواب اورگناہ دونوں میں ایک درجہ مزید زیادتی ہو جا تی ہے، کیوں کہ تحریر ایک قائم رہنے والی چیز ہے،مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے، اس لیے جب تک وہ دنیا میں موجود رہے گی اور لوگ اس کے اچھے یابرے اثر سے متاثر ہوتے رہیں گے اس وقت تک کاتب کے لیے اس کا ثواب یا عذاب جاری رہے گا۔

انسانی معاشرہ جب جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہے تو اس میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔جھوٹ پر مبنی معاشرہ کے ہر فرد سب سے پہلے شجاعت و جرات ختم ہوتی ہے۔ایسے معاشرے میں مظالم بڑھتے جاتے ہیں۔اورظلم کے خلاف اہل باطل کے سامنے سچ کی گواہی دینے کی جرات اور ان سے سوال کرنے کی ہمت ختم ہو جاتی ہے۔انسانوں کے درمیان نفرتیں فروغ پاتی ہیں، اعتماد ختم ہوتا ہے،مسائل کا حل سوجھتا نہیں ہے، اور سوجھتا بھی ہے تو فکر و عمل میں اس کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے۔وہیں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جس طرح مچھلی ہمیشہ سرکی جانب سے سڑتی ہے ٹھیک اسی طرح کسی قوم اور اجتماعیت کا معاملہ بھی یہی ہے۔

یعنی کسی بھی قوم کے سڑنے کا آغاز اس کے سر کی جانب سے ہی ہوا کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ برائی سب سے پہلے کسی قوم کے اہلِ دانش میں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں مفکرین، فلسفی، علماء کرام، شاعر، ادیب، صحافی، سیاسی و سماجی رہنما وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ منطقی بات ہے کہ ابتدا میں ابلاغ کا عمل اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے، جب ابلاغ کے عمل کا یہ مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے تو ابلاغ کا یہ عمل اپنے پھیلائو کے لیے دوسری سمتیں تلاش کرتا ہے۔اور دوسری سمتیں آج وہی ہیں جسے ہم سوشل میڈیا کہتے ہیں۔جس کے ذریعہ سے آج بڑے پیمانہ پر جھوٹ کی تشہیر اور اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔لہذا ضرورت ہے کہ زبان و قلم اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ہم بہت محتاط رہیں۔لیکن اگر ہم نے اپنے شعور و بصیرت کا استعمال نہیں کیا تومعاشرہ حد درجہ بدصورت ہوتا جائے گا،اور اس کی بدصورتی میں ہم بھی کسی نہ کسی درجہ ذمہ دار ہوں گے!

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com