لیورپول میں ٹیکسی دھماکے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟

Liverpool Taxi Blast

Liverpool Taxi Blast

لیورپول (اصل میڈیا ڈیسک) برطانوی پولیس لیورپول میں ایک ٹیکسی میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے اور ذہنی طور پر پریشان حال ایک ایسے عراقی نژاد شامی باشندے کے پس منظر کی تحقیقات کر رہی ہے، جو تبدیلی مذہب کے بعد مسیحی ہو گیا تھا۔

رپورٹوں کے مطابق برطانوی پولیس لیورپول میں گزشتہ اتوار کے روز ایک ہسپتال کے سامنے ایک ٹیکسی میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے شخص کے پس منظر کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔ یہ ایک عراقی نژاد شامی باشندہ تھا، جس نے تبدیلی مذہب کے بعد مسیحیت قبول کر لی تھی۔ شمال مغربی انگلینڈ میں انسداد دہشت گردی کی ذمے دار پولیس نے اس واقعے کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیے گئے چار افراد کو رہا کر دیا ہے۔ برطانیہ کے سلامتی امور کے وزیر ڈیمیئن ہائنڈز نے آئی ٹی وی نیوز کو بیان دیتے ہوئے کہا، ”پولیس نے چھان بین کے ذریعے اطمینان کرنے کے بعد ان افراد کو رہا کر دیا ہے۔‘‘

برطانوی پولیس کو شبہ ہے کہ مبینہ دہشت گرد عماد ال سویلمین ہی وہ شخص تھا، جو دیسی ساختہ بم کے لیورپول کے ایک ہسپتال کے باہر کھڑی ٹیکسی کے پچھلے حصے میں دھماکے سے پھٹ جانے کے نتیجے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ تب ٹیکسی ڈرائیور اس کی لاش ٹیکسی ہی میں چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا۔ اس ڈرائیور کو معمولی زخم آئے تھے۔ یہ دہشت گردانہ واقعہ برطانیہ کے ایک کنزرویٹو رکن پارلیمان کے چاقو سے ہلاک کر دینے کے واقعے کے بعد ایک ماہ کے اندر دہشت گردی کا دوسرا واقعہ ہے اور اسی وجہ سے حکام نے دہشت گردی کے خطرے کا لیول مزید بڑھا دیا ہے۔

پولیس نے لیورپول دھماکے میں مبینہ طور پر ملوث مشتبہ شخص کے بارے میں کچھ اور تفصیلات بھی بتائی ہیں۔ سلامتی امور کے وزیر ہائنڈز نے تاہم تفتیشی کارروائی کے پیش نظر مشتبہ دہشت گرد کے پس منظر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ دریں اثناء سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ملکی اخبارات اور نشریاتی اداروں نے اپنی رپورٹوں میں کہا ہے کہ عماد ال سویلمین ایک ایسا ناکام عراقی شامی سیاسی پناہ گزین تھا، جس کی ذہنی صحت کے غیر مستحکم ہونے اور اسے درپیش نفسیاتی مسائل کی نشاندہی اس کے پس منظر سے بھی ہوتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق عماد ال سویلمین کو 2017 ء میں اس کی پناہ کی اپیل رد ہونے کے بعد لیورپول کے ایک رضاکار مسیحی جوڑے نے آٹھ ماہ تک اپنے ساتھ رکھا تھا۔ اس جوڑے نے ایک نشریاتی ادارے کو بتایا کہ وہ اتوار کے روز پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعے کی وجہ سے صدمے میں ہے۔ الزبتھ اور میلکم ہچکوٹ کا مزید کہنا تھا، ”ہم صرف اس سے پیار کرتے تھے۔

وہ ایک دلکش انسان تھا۔‘‘ میلکم ہچکوٹ نے یہ بھی کہا کہ ال سویلمین مرکزی لیورپول میں ایک بار چاقو سمیت گرفتار ہوا تھا، جس کے بعد اس نے کچھ وقت ایک نفسیاتی علاج گاہ میں بھی گزارا تھا۔ ”اس کے علاوہ وہ ایک بہت پرسکون شخص تھا جس نے اسلام ترک کر کے مسیحیت کو بطور مذہب قبول کر لیا تھا۔‘‘ میلکم ہچکوٹ نے آئی ٹی وی کو مزید بتایا کہ عماد ال سویلمین نے لیورپول کے ایک کیتھیڈرل سے بپتسمہ بھی لیا تھا۔ یہی وہ چرچ ہے جہاں اتوار کو برطانیہ کے سابق فوجیوں اور جنگ میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک یادگاری تقریب میں قریب دو ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔

یہ امکان بھی ہے کہ ٹیکسی میں سوار عماد اس چرچ تک پہنچنا چاہتا تھا، جہاں جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تقریب کا انعقاد ہو رہا تھا۔ سڑک بند ہونے کے سبب ٹیکسی لیورپول کے ایک ہسپتال کے سامنے رک گئی تھی، جہاں یہ دھماکہ ہوا تھا۔