عشق کرب ذات

Ishq

Ishq

تحریر : شاز ملک
سنو اے محرم جان اس ذات پاک نے مجھے دینے پر لگا دیا ہے اور بازار دنیا میں چھوڑ کر فرمایا جا بانٹ دنیا کو جو تیرے پاس اللہ کی طرف سے اتا کردہ ہے میں تھی دست آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتی ہوں تو اسکا عکس بادلوں کی نیلاہٹ میں گھل جاتا ہے، تو کبھی اسکا نور سفیدی کی تہوں میں بسا دیکھتا ہے میں عالم تحیر میں سجدے میں گر جاتی ہوں*تو اسکے عشق کا ذائقہ میرے آنسووؤں کے نمکین پانی میں گھل کر انھیں اور نمکین بنا دیتا ہے اور جب میں اپنے ٹوٹے ہوئے دل میں دیکھتی ہوں تو ہر ٹکڑے پر بس اسکا ہی نام لکھا ہوا نظر آتا ہے اور میری بینای کو خیرا کرتا ہے۔

اور جب میں اپنی ذات کے کونو کھدروں سے اپنی روح میں جھانکتی ہوں تو تو وو مجھ سے کہتا ہے یہ بینائی بھی ان میں بانٹو جو دیدہ ا بینا سے محروم ہیں یہ جو تم نے اپنی روح پر سچای کی ردا اوڑھی ہے اسکے رنگ بھی تمہیں انکو دینے ہیں جو جھوٹ کی کالک میں لپٹے ہوئے ہیں میں حیرت زدہ ہو کر پھر اپنے آپکو دیکھتی ہوں تو ووہ کہتا ہے یہ سمآآتیں بھی انلوگوں کو سنآ ؤ جو اس سے محروم ہیں ،میں گھ بھرا کر اپنے آپ سے نظریں چرا نے لگتی ہوں تو وہ کہتا ہے۔ یہ دل میں کپے جذبے بھی ان پر لوٹا دو جو ان جذبات و احساسات سے عاری ہیں ،میں اپنی ذات کے کونو کھدروں میں چھپنے کی ناکام سعی کرتی ہوں۔

 Bowl

Bowl

تو وہ میرے ہاتھ میں ایک کشکول تھما کر کہتا ہے یہ لو تیرے ضبط و ظرف کا پیالہ جسے میں نے اب اتنی وسییح کر دیا ہے کے اب اسس میں سات سمندر بھی سما جاہیں اور پھر جو تمہیں اس کشکول میں عطا کیا جاے گا وہ بھی تمہیں سب میں بانٹنا ہو گا ،خود کو بانٹ بانٹ کر جب یہ محسوس کرنے لگو کے اب تمہارا کچھ بھی نہیں رہا تو تب میں دیکھونگا کے تم میرے بننے کے لایق ہو کے نہیں
میں گھب رآ کر ہانپتی کانپتی ذات کے اسس حصر سے نکل کر سوچتی ہوں کے اسس کسوٹی کی پرکھ کیا ہے میں اس پر پورا اترتی ہوں یا نہیں یہ مجھے علم نہیں میں تو صرف اتنا جانتی ہوں سچ تو یہ ہے کے میرے پاس تو کسی کو دینے کے لئے ہے ہی کیا ؛ اور میں کیوں دون کسی کو وہ جو خا لیص صرف میرا ہے۔

مگر آج جب ماہ و سال کی گردشوں کے آیئنے میں اپنا رنگ روپ خالص جذبوں کو دیکھتی ہوں جو میں نے راہ زیست میں لوٹا دئیے وہ بھی اسس لئے کے اگر میرا الله میرے ظرف کے کاسہ ے گدایی کو فراخ نہ کرتے تو کیا ممکن ہوتا میں یعنی ذرا ے خاکی تنگدست ہوتی ، آج اگر میری مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر سلامت ہے تو یہ ان لوگوں کی دیں ہیں جنہیں میں نے آنسو پونچھ کر مسکراہٹ بانٹی تھی۔

Allah

Allah

اور جانتے ہو دینے میں جنتا سکوں ہے لذّت ہے وہ لینے میں نہیں ہے اور کسی بھی جذبے میں سخاوت نہ ہو تو وہ عداوت بن جاتی ہے
سخاوت میں دل بد کرنا پڑتا ہے جب کے عداوت دل کو تانگ کر دیتی ہے محدود کر دیتی ہے اپنی ذات تک اپنی آنا تک، یہ دینا صرف مال و دولت سے وابستہ نہیں ہے درد سے مسکراہٹ سے پیار کی حلاوت سے اور میٹھے بولوں کی سخاوت سے ممکن ہوتا ہے ،پھر یہ سخاوت الله بھی ہمارے لئے یوں کرتا ہے کے ہمیں اپنا بنا لیتا ہے ہمیشہ کے لئے ، ابد تک کے لئے۔

تحریر : شاز ملک