آخر کیوں

Allah

Allah

دنیاوی محب کی محبت اتنی گہری ہو سکتی ہے کہ اُسے اس دنیا کی عورت جنت کی حوروں سے زیادہ حسین نظر آنے لگے، وہ اس کی محبت میں دنیا کو جنت تصور کر سکتا ہے تو پھر اُس خالق حقیقی کی محبت کا عالم کیا ہو گا؟ جس نے خوبصورت محب، محبوب، دنیا، جنت اور اس میں حوریں تخلیق فرمائی ہیں؟ یہ ممکن نہیں کہ انسان دنیا اور جنت سے محبت کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تمام محبتوں سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونا لازم و ملزوم ہے ۔اللہ تعالیٰ کے انبیاء اکرام، خاص طور پر سرکار دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پاک اور تمام اولیاء اللہ کا ادب و حترام، اُن کے ساتھ خاص محبت ہونا بھی ضروری ہے۔

پیرو مرشد سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست سرکار کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہوتو اللہ تعالیٰ کے بزرگ دیدہ بندوں کا احترام اور مخلص محبت کیا کرو ،جیسا اس دنیا میں جس کے پاس کوئی سفارش نہ ہوآفیسر اُس کی بات نہیں سنتے ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے بھی مخلوق کے سفارشی بن جاتے ہیں تو اللہ پاک رحمتیں نازل فرماتا ہے۔یہ بات حقیقت ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے یہ ممکن نہیں کہ گندم کی فصل بوکر آم کے پھل توڑے جائیں اور انگور وں کی بیل اُگا کر کھجور حاصل ہوسکے۔ظلم و زیادتی اور حدسے تجاوزکرنے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہونا لازم ہوجاتاہے ۔آج ہم اپنے اعمال درست کرنے کی بجائے دوسروں کوا لزام دے کر اپنے لئے راہ نجات تلاش کررہے ہیں ۔زلزلے کی صورت میں باربار نازل ہونے والاعذاب الٰہی ہمیں خبردار کررہاہے کہ اب بھی وقت ہے سمجھ جائو ڈرواس بڑے عذاب سے جوظالموں پر نازل کیا جانے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایاہے ”اوروہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں”(البقرة:٤)مسلمان کا روزآخرت پر یقین ہونا لازم ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کواُس دن کی تیاری کیلئے دنیا میں کچھ وقت کی مہلت دے رکھی ہے ۔جولوگ اسی دنیا کواپنا سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اوردن رات حتیٰ کہ ساری زندگی دنیا کی طلب میں گزار دیتے ہیں ،آخرت کے دن کی کوئی تیاری نہیں کرتے جس دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سجے گی اور سب کوان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔اُس دن ایسے لوگوں کے حصے میں صرف خسارہ آئے گا۔اوروہ سوائے پچھتانے کے کچھ نہ کرسکیں گے۔ا سلام سے پہلے کسی مذہب میں بھی آخرت کا تصور نہ تھا جس کی وجہ انسان اپنی زندگی کی قدروقیمت سمجھے بغیر غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے پرمجبور تھے۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

عرب لوگ آخرت کے قائل نہ تھے چنانچہ جب سرکاردوعالم حضرت محمدۖ آخرت کے بارے میں بات کرتے اور ان سے فرماتے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوکراپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہے تووہ چونک جاتے اور تعجب سے سوال کرتے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ گلی سڑی ہڈیاں پھر سے زندہ ہوجائیں؟ آج کامسلمان بھی دنیا کی حد سے زیادہ طلب میں تصور کرلے کہ جووہ بسر کررہاہے وہی مکمل اور آخری زندگی ہے تو اُسے ظالم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ،حرس ولالچ کااس قدر پجاری ہوجائے گاکہ ساری کائنات کارزق اپنے گھر میں جمع کرنے کی خواہش کرے گا ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے اندر موجود ہر طرح کی نعمتیں بھی اُسی کی ہیں جسے چاہے جتنا چاہے عطا کردے اور عطا کرنے کے بعد پھر واپس لے لے۔انسان اس دنیا میںکتنی ہی زیادہ دولت،اُولاد،زر، زمین اور جائیداد کا مالک بن جائے اُسے ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے ۔یوں ایک دن اللہ تعالیٰ اپنے زمین جائیداد سے انسان کو بے دخل کردیتا ہیں ، جن لوگوں کے پاس اچھے اعمال ہوں گے اُنہیں اللہ تعالیٰ اس دنیا کے مال ودولت سے بہتر عطا فرماے گا،یہ وہی خوش نصیب لوگ ہوں گے جنہیں آخرت کا یقین ہوا اور انہوں نے دنیا کی زندگی کوعارضی سمجھ کر روزآخرت کی تیاری کی ہوگی۔

کیونکہ روزحشر یعنی قیامت زیادہ دور نہیں جسے ہم بہت طویل سمجھ رہے ہیں درحقیقت وہ زندگی بہت مختصر ہے وہ دن دور نہیں جس دن اللہ تعالیٰ تمام عالم اور اس میں بسنے والی مخلوقات کومٹا دے گا اور پھر سب کوایک دوسری زندگی بخشے گااوراس دن سب اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوںگے۔لوگوں نے جوکچھ دنیاوی زندگی میں کیا ہوگا اس کا پورااعمال نامہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوگا۔ہرفردکے اچھے اور بُرے اعمال کاوزن کیاجائے گا،اچھے اعمال والوں کواجرعظیم اور جنت کا انعام ملے گا اور بُرے اعمال والوں کوسزادی جائے گی ۔بس ہمیں آج اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں صرف دنیا چاہئے یا دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا انعام بھی چاہئے ؟اگر ہم اپنی موجودہ زندگی پر غور کریں توصاف صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمیںجومصائب اور مشکلات درپیش ہیں وہ تمام ماضی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمان اور حد سے تجاوزکرنے والی ظالم قوموں پر نازل ہوچکے ہیں۔

ہم سمجھ رہے ہیں کہ دہشگردی ،بدامنی،ناانصافی،مہنگائی ،لوڈشیڈنگ،بے روزگاری ،بیماریوں کی یلغار،سیلاب جیسے مصائب ہمارا ہمسایہ ملک بھارت یا امریکہ یاکوئی دشمن ملک پیدا کررہا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟مان لیا کہ بھارت نے دریائوں میں اضافی پانی چھوڑ کر پاکستان میںسیلابی ریلے بھیجتا ،مان لیا کہ دہشتگردی میں ڈرون حملوں کی وجہ سے شدت آئی تھی، یہ بھی مان لیا کہ دہشتگرد جو بارود استعمال کررہے ہیں اسرائیل،بھارت یاامریکہ سے آتا ہے ۔زلزلے تو بھارت ،اسرائیل یاامریکہ نہیں پیدا کرتے ۔دوسروں کوالزام دینے سے ہمارے اعمال درست نہیں ہونگے جن کی وجہ سے آج ہم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ مصائب اورمشکلات میں مبتلا ہیں۔ہمیں مصائب اور مشکلات سے نجات حاصل کرنے کیلئے اپنے گزشتہ گناہوں کی مافی مانگ کر آئندہ کیلئے توبہ کرنی ہوگی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ”اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز عذاب نہیں دے گا۔

اگر وہ گناہوں سے بخشش مانگتے رہیں ”(انفال:٣٣)البتہ ہم نے ان کو عذاب میںپکڑا مگر وہ لوگ نہ تواپنے رب کے سامنے گڑگڑا ئے اور نہ ہی عاجزی کی یہاں تک جب ہم سخت عذاب کادروازہ کھول دیں گے تووہ حیرت زدہ ہوجائیں گے (المومنون:٧٦،٧٧)”ڈرو ایسے فتنے سے جوصرف جوتم میں ظالم ہیں تک محدود نہیں رہے گابلکہ دوسرے (نیک لوگ)بھی اس میں مبتلا ہوجائیں گے اور یقین کرلواللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے ”ایک جگہ اورارشاد ہوا کہ ”پس اگر وہ(یونس علیہ السلام)تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تویقیناوہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے(الصفات:١٤٤)’اگر اللہ تعالیٰ کے نبی بخشش مانگے بغیر مشکلات سے نہیں نکل سکتے تو پھر آج ہم مسلمان کس بات کا انتظار کررہے ہیں ؟کیوں ہم اپنے گناہوں کی بخشش نہیں مانگتے؟کیوں ہم اپنے رب کے سامنے سجدہ ر یز ہوکر مصائب،مشکلات اور عذابوں سے نجات طلب نہیں کرتے ؟کیوں ہم نے آخرت کی خوبصورت زندگی کو بھلادیا؟کیوں ہم دنیا کے لالچ میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں ؟کیو سودی نظام سے جان نہیں چھڑا رہے؟آخر کیوں ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھ اور پہچان کربھی گناہوں سے توبہ نہیں کررہے؟آئیں اپنے رب کے حضور توبہ کریں ،اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں ،نازل ہوچکے مصائب،مشکلات اورعذابوں سے نجات طلب کریں ،آئیں ہم چھوٹے بڑے تمام طرح کے ظلم کو روک دیں ۔آئیں ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرکے دنیا و آخرت کا انعام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com