جنوبی پنجاب میں مہر منظور حسین سمرا کے بیٹے کو پذیرائی

Yasir Waseem with Bilawal Bhutto

Yasir Waseem with Bilawal Bhutto

تحریر : ایم آر ملک

70سے لیکر 2008 تک لیہ کا سمرا خاندان عوام کی عدالت میں سر خرو رہا 2013 کے الیکشن میں یہ عوام کی بد قسمتی تھی کہ مہر فضل حسین سمرا جیسے عوامی نمائندے کو شکست سے دوچار ہونا پڑا مہر فضل حسین سمرا جنوبی پنجاب کا ایسا پارلیمانی فرد تھا جسے عوام کے گراس روٹ لیول تک مسائل سے مکمل آگاہی اور دسترس تھی جنوبی پنجاب کا کوئی بھی عوامی نمائندہ پارلیمنٹ میں اس طرح عوام کا مقدمہ نہ لڑ سکا جس طرح مہر فضل حسین سمرا نے لڑا ان کی سیاسی تربیت میں بڑا ہاتھ مہر منظور حسین سمرا کا تھا مہر منظور حسین سمرا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ ساتھیوں میں سے تھے 70کے الیکشن میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور تاریخی کامیابی حاصل کی 73کے آئین پر مہر منظور حسین سمرا کے دستخط بھی موجود ہیں برسوں پہلے ایک روز ان کے ڈیرہ پر ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی نظروں میں کسی ممبر پارلیمنٹ کی وہ حیثیت نہ تھی جو حیثیت کسی ورکر کو حاصل تھی چوک اعظم کا چا چا اصغر کہا کرتاتھا کہ بیورو کریسی کے پاس کوئی اختیار نہ تھا ہم عام ورکر تھے لیکن جب کسی مظلوم کی داد رسی کیلئے کسی پولیس آفیسر کے پاس جاتے تو وہ ہمیں دیکھ کر کھڑا ہوجاتا مہر فضل حسین سمرا کے ڈیرے پر گزشتہ روز جانا ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر کے نیچے مہر منظور حسین سمرا کی تصویر پر نظر پڑی ماضی میرے سامنے آکھڑا ہوا مہر منظور حسین سمرا کہہ رہے تھے کہ ہم نے جب بھی وزیر اعلیٰ پنجاب یا گورنر کے پاس بیوروکریسی کی رعونت کا تذکرہ کیا اس نے فوراًہماری بات کا نوٹس لیا اب تو شہباز شریف بیورو کریسی کے ذریعے عوام پر حکمرانی کر رہا ہے نظریاتی ورکروں کی ان کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں میرے دوست لقمان اسد کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بھٹو کی پارٹی کو مشکلات کا سامنا ہے ضلع لیہ میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے کوئی دوسری پارٹی اتنے بہترین فیصلے نہیں کر سکی۔

میں ماضی کے دریچوں سے مہر یاسر وسیم سمرا کو مہر منظور حسین سمرا ،مہر فضل حسین سمرا کے جانشین کے طور پر عوامی عدالت میں کھڑا دیکھ رہا ہوں اس کا لہجہ بھی اپنے باپ کی مانند ہے ایک مظلوم کیلئے بیورو کریسی کے سامنے اس کا کردار بھی مزاحمتی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے مہر یاسر وسیم سمرا کو ٹکٹ دیکر بھٹو کے دیرینہ دوست کی روح کو قرار بخشا اس کے نظریات کی آبیاری کی ایک ایسے وقت میں جب دوسری پارٹیوں کی لیڈر شپ ٹکٹیں بیچ کر ضمیر کی قیمت وصول کر رہی ہے مہر یاسر وسیم سمرا کا ٹکٹ میرٹ کا اائینہ دار ہے۔

احباب کی کثیر تعداد سورج طلوع ہونے سے قبل مہر یاسر وسیم سمرا کے شانہ بشانہ نکلتی ہے اور تاروں کی چھائوں میں لوگ واپس اپنے گھروں کی دہلیز عبور کرتے ہیں سمرا قوم کا کردار ہی اس کی جیت کی راہ ہموار کرسکتا ہے سمرا قوم نے ہمیشہ غلام حیدر تھند کی مردہ سیاست کو آکسیجن لگا کر زندہ کیا سید اختر حسین شاہ کے مقابلے میں اگر سمرا قوم غلام حیدر تھند کا ساتھ نہ دیتی تو غلام حیدرتھند کی سیاست آج زندہ نہ ہوتی آج پیپلز پارٹی قیادت کا یہ احسان ہے کہ مہر رشید ناصر سمرا اور مہر یاسر وسیم سمرا کے پاس پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے ٹکٹ ہیں سمرا قوم کی نئی نسل یقیناً مہر یاسر وسیم سمرا اور مہر رشید ناصر سمراکی جیت کے خواب دیکھ رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی میں ان کا تحرک دیکھ رہا ہوں وہ قوم جس کی اراضی کا ایک سرا دریائے سندھ کے شرقی کنارے سے شروع ہوتا اور دریائے چناب کے غربی کنارے پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس کا بیٹا مہر یاسر وسیم اپنی شناخت چاہتا ہے اور اس کی شناخت تب ہی ممکن ہے جب وہ پارلیمنٹ کے فورم پر لیہ کی پسماندگی کا مقدمہ لڑے کیا سمرا قوم کا ہر فرد یاسر وسیم سمرا بن کر اپنے گھر کی دہلیز پار کرے گا ؟مہر سیف سمرا سے میں مخاطب ہوں جس نے ہمیشہ سمرا قوم کی ماضی میں سیاسی اور معاشی جنگ لڑی اس بار سمرا قوم کی بقا کی جنگ ہے جو اسے لڑنا ہے مہر محمد یار سمرا کو اپنے گھر سے ماضی کی طرح نکلنا ہوگا ،مہر محمد حسین سمرا ،مہر اللہ وسایا سمرا ،ڈاکٹر امیر محمد سمرا، مہر یاسر وسیم سمرا ،مہر رشید ناصر سمرا کا الیکشن اپنے بیٹوں کا الیکشن سمجھ کر لڑیں مہر مسرور حسین سمرا ایڈووکیٹ کو پرانی رنجشیں بالائے طاق رکھنا ہوں گی اپنے تابناک ماضی میں جھانکنا ہوگا جس کی پیشانی پر مہر عبدالحق جیسے عظیم دانشور اور مہر غلام حسین سمراء جیسے قانون دان کا نام جھومر بن کر چمک رہا ہے مہر امین سمرا بھی اپنی قوم کی جنگ لڑ رہا ہے میں مہر یاسر وسیم سمرا کی شکل میں مہر منظور حسین سمرا ،مہر فضل حسین سمرا کو زندہ ہوتے دیکھ رہا ہوں۔

Mrmalik

Mrmalik

تحریر : ایم آر ملک