مذاکرات اب اپنی منزل کی طرف

Taliban

Taliban

اور تیز ترین خبروں میں اس وقت طالبان سے مذاکرات کے لئے پیش رفت ہوئی جس میں حکومت کی طرف سے چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ،جو طالبان سے امن کے لئے مذاکرات کرے گی ،ایک بات کی آج سمجھ نہیں آسکی کے طالبان کے لئے، کالعدم کا لاحقہ کیوں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ چند سوطالبان کی تحریک ایک فعال تنظیم ہے، جس نے پاکستان کے قر یباً ١٧ کروڑ عوام کے مینڈیٹ کی حامل حکومت کو اپنی مطلب براری کے لئے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے، ابھی تو صرف مذاکرات کی بات ہے …جن کی کامیابی کے لئے ہر شخص دست بہ دعا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ امن کے لئے مذاکرات ضروری ہیں …ابھی تک کسی جانب سے یہ وضاحت نہیں کی جاتی کہ مذاکرات کی میز پر طالبان کی کیا حیثیت ہوگی کہ مذاکرات تو ہمیشہ برابری کی سطح پر ہی سجتے ہیں،یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وزیر آعظم میاں نواز شریف بھارت جاتے ہیں تو مذاکرات میں بھارتی وزیرآعظم کی بجائے مذاکرات کسی ایرے غیرے سیکرٹری سے ہوں ، ….طالبان کے چند گروہوں سے مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے …..اور پچاس ہزار سے زائد بے گناہوں کے خون کو معاف کر دیا گیا۔

کمیٹی کا پہلا اجلاس وزیر آعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں ہوأ جس میں واضح مینڈیٹ اور مکمل اختیارات دیتے ہوئے، کہا کہ مزاکرات فوری شروع کئے جائیں مذاکرات کے عمل میں کمیٹی با اختیار ہے اور تمام سیاسی جماعتیں ان کی پشت پر تا کہ دہشت گردی ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائے ،اسی روز طالبان کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوأجس میں پانچ ناموں کا اعلان کیا گیا ،جمیعت علماء اسلام(س)کے امیر مولانا سمیع الحق ،جمیعت علماء اسلام (ف) کے راہنما مفتی کفائت اللہ، لال مسجد کے مولانا عبدلعزیز، تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان اور جماعت اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہیم مذاکراتی ٹیم، لیکن تحریک طالبان نے اپنے کسی اہم راہنما کو مذ اکراتی کمیٹی میں شامل نہیں کیا….البتہ عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان اپنے نمائندے منتخب کرے

مولانا عبدلعزیز ابھی گوں مگوں کی حالت میں، چئیرمین عمران خان کی کمیٹی میں شمولیت بارے تحریک اپنے آج کے اجلاس میں فیصلہ کرے گی، میں نے اپنے ایک مضمون میں پہلے ہی لکھا تھا کہ حکومت کی طالبان سے مذاکرات کی خواہش ہے تو پھر مولانا سمیع الحق، سید منور حسن امیر جماعت اسلامی اور لیاقت بلوچ ہی سے مذاکرات کر لے کہ وہ کیا چاہتے ہیں کیونکہ جناب امیر جماعت اسلامی نے ملک کی سرحدوں کے محافظوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں مارے جانے والوں کو شہید کہنے سے انکار کیا جبکہ طالبان کو شہید کے منصب پر فائز کیا، تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ جماعت بھی طالبان کا دوسرا رخ ہے۔

Dialogues

Dialogues

اب طالبان نے بھی انہی لوگوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ حکومت سے بحثیت طالبان مذاکرات کریں، یہ خبریں بھی ہیں کہ طالبان کی طرف سے ٢٢ ممکنہ مطالبات ہیں اور مطالبات کوئی ایسے خفیہ نہیں جن کا کسی کو علم نہ ہو اگر مجھ جیسے سڑک سوار کو بھی علم ہے اور میںنے ابھی ٢٨ جنوری کے مضمون میں لکھا ہے کہ مطالبات کیا ہونگے تو پھر حکومت کیسے بے خبر ہو سکتی ہے یہ کھیل تو عوام کو جن کے عزیز کفیل ،بیٹے ،بھائی اور عورتوں کے سہاگ طالبان کھا گئے امن کے نا م پر مطمئین کرنا ہے گو کے یہ اُن کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہوگا جب اُن کے قاتلوں کو رہا کیا جائے گا اِ ن مطالبات بارے یہ بھی کہا جاتا ہے مطا لبات کی اتنی لمبی فہرست کوئی فاتح ہی اپنے مفتوح کے سامنے رکھتا ہے۔

ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے،مذاکرات ہوں مگر اُن متاثرین جن کے عزیز انہوں نے مارے ہیں اُن کے جذبات کا بھی خیال رکھا جائے نہ کہ وہ زندگی بھر روتے اور امن کوکوستے رہیں ،طالبان تو امن کے لئے کوئی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار نہیں البتہ دینی حلقے اور حکومت کوئی بھی قیمت اد ا کرنے کو تیار ہیں بشرط کہ اُن کے مقتدر حلقے کے اقتدار کو چیلنج نہ کیا جائے اور اُن کے اقتدار اعلےٰ کو تسلیم کیا جائے، میرا نہیں خیال کے اُن کے اقتدار کو چیلنج کیا جائے گا البتہ طالبان اپنے ٢٢ مطالبات پر اسرار کریں گے، آج یہ فہرست سامنے آگئی ہے جس میں پہلا مطالبہ ہی یہ ہے کہ پاکستانی جیلوں میںموجود تمام ملکی اور غیر ملکی طالبان قیدیوں کی رہائی… اِ س مطالبہ پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی البتہ ہو سکتا ہے دیگر شرائط پر کوئی سودے بازی ہو… . مگر اپنی پیش کردہ شرائط سے کسی بھی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹیں گے ، ان شرائط کی روشنی میں امید ہے، امن کے قیام کے مقاصد حاصل کر لئے جائیں گے اور ملک میں امن بحال ہو جائے اس امید کے ساتھ وسوسے بھی گھیرے ہوئے ہیں۔

ابھی اور گروپ بھی مذاکرات پر یقین رکھنے والے حلقوں کا اسرار ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں اگر یہی سچ ہے تو پھر دنیا میں آج تک ہزاروں جنگیں کیوں ہوئیں ،؟ جن میں اربوں کھربوں انسان مارے گئے اور زیادہ جنگئیں مذہب کے لئے لڑی گئیں کیوں ؟ ہم نے بھارت کے ساتھ دو جنگیں لڑی کیوں ؟ جب دنیا میں پہلی جنگ ہوئی وہاں تو کوئی مسلہ نہیں تھا محض انا کے لئے ….بھائی نے بھائی کو قتل کر دیا اور حتیٰ کہ اسی انا پرستی یا اقتدار کے لئے نواسئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا گیا کیا وہاں یہ اصول لاگو نہیں تھا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ؟ ، کیا وہ لوگ اِس نسخہ کیمیا سے کہ جنگ مسائل کا حل نہیںبے خبر تھے ؟اگر آج ہمارے بزرگوں کے ہاتھ یہ نسخہ آیا ہے تو پھرجن دشمنوں کے لئے ایٹم بم بنائے گئے ہیں اُن سے بھی انسانیت کے ناتے اور امن کے لئے ہاتھ ملائیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ،آؤ امن اور انسانیت کی بقا کے لئے امن کی فضا قائم کریں اور انسانیت پر احسان عظیم ہو گا لیکن اگر صرف اپنے مقصد کے لئے کہا جاتا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں تو یہ بہر حال فریب اور خود کو ہی نہیں دنیا کو بھی دھوکا دینا ہے۔ یہ بہت ہی اچھی سوچ وفکر ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں کاش ہم اس پر صدق دل سے عمل بھی کریں تو یہ دنیا جنت نظیر بن جائے گی ……..مگر ایسا ہو جائے ممکن نہیں۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م بدر سرحدی