مولانا ظفر علی خان ایک عظیم نڈر صحافی

Maulana Zafar Ali Khan

Maulana Zafar Ali Khan

تحریر: عقیل احمد خان لودھی
مولانا ظفر علی خاں کا نام آتے ہی ذہن میں دبنگ اور جراتمندانہ صحافت کا تصور ذہن میں ابھرنے لگتا ہے۔ آپ عظیم شاعر ادیب اور بے باک صحافی تھے۔ آپ نے آزادی کی تحریک کو اپنی تحریروں کے ذریعے ایسی قوت بخشی کہ خود کو کبھی نہ غروب ہونے والی سلطنت کا مالک سمجھ لینے والے برٹش راج کو بھی منہ کی کھانا پڑی۔ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان 19 جنوری 1873ء کو وزیرآباد کے قریب ضلع سیالکوٹ کے گا ئوں کوٹ میرٹھ میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول وزیرآباد سے حاصل کی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجوایشن کے بعد علی گڑھ کو ہی اپنا علمی مرکز بنالیا جب 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تو مولانا ظفر علی خان اس کے بانیوں میں شامل تھے۔

مولاناظفر علی خان 1908 میں لاہور آئے اور روزنامہ زمیندار کی ادارت سنبھالی جسے ان کے والد مولانا سراج الدین احمد نے 1903ء میں شروع کیا تھا آپ کی زیر نگرانی ”زمیندار” اہم اخبار بن گیا تھا ، زمیندار ایک اردو اخبار تھا جو مسلمانوں کا حقیقی ترجمان تھا۔ ابتدائی ایام میں اخبار کی مالی ساکھ اتنی مضبوط نہ تھی وجہ یہی تھی کہ برصغیر کے تمام بڑے کاروباروں اور صنعت پر ہندوئوں اور انگریزوں کا قبضہ تھا اخبار کو کوئی اشتہار وغیرہ نہیں ملتے تھے۔ سرمایہ کی کمی کی وجہ سے زمیندار کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہ کیلئے بھی رقم موجود نہ ہوتی تھی۔مگر جذبہ ایمانی کی دولت سے مالا مال اخبار نے فرنگی راج کو ناکوں چنے چبوادیئے۔

زمیندار کے خصوصی مقالات ،تازہ خبروں کی فراہمی،مولانا کی روح پرور نثری اور شعری تخلیقات نے ہندوستان بالخصوص پنجاب کے مسلمانوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرلی اس کی اشاعت تمام اخبارات سے زیادہ تھی اس وقت کے لوگ بالخصوص ناخواندہ پٹھان ایک آنہ میں زمیندار اخبار خرید تے اور کسی پڑھے لکھے سے ایک آنہ دیکر پڑھواتے تھے۔

یہ اردو اخبار سے محبت تھی اور اس اخبار کی خوبی تھی کہ جاہلوں کو بھی اخبار سننے پر مجبور کرتی تھی۔نیت صاف ہوتو ہمیشہ منزل کیلئے آسانی پیدا ہوتی ہے مولانا ظفر علی خان نے صحافت کو سرمایہ داری کیلئے استعمال نہیں کیا تھا نہ ہی کبھی کسی کی خوشامد کی تھی کسی کے آگے جھکے نہ کبھی بکے صحافت کو حقیقی معنوں میں مقدس مشن بنایا آپ کی شاعری مسلمانوں کیلئے کبھی ڈھال تو کبھی تلوار بنی۔آپ نے صحافت سے وابستہ افرادکو جراتمندانہ صحافت کی راہ دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

”قلم سے کام تیغ کا اگر کبھی لیا نہ ہو
تو مجھ سے سیکھ لے فن اور اس میں بے مثال بن۔

مولانا ظفر علی خاں کی صحافتی او رسیاسی شاعری، ان کی غیر معمولی دماغی صلاحیتوں، تحریک حریت میں ان کے جرات مندانہ کردار، ان کا اردو صحافت میں خود ایک دبستان اور درسگاہ کی حیثیت اختیار کر جانا، جنگ آزادی پاکستان میں ان کا بہادر مجاہد کی طرح انگریز حکمرانوں کو للکارنا اور آزادی تقریر و تحریر کے جرم میں طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنا یہ سب وہ حقائق ہیں جس سے مولانا ظفر علی خاں کا بڑے سے بڑا سیاسی مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا ۔آپ سچائی کیلئے جرات کا استعارہ بن کرکہتے ہیں۔
”کرانا ہے قلم ہاتھوں کو، رودادِ جنوں لکھ کر
تو اس دور ستم پرور میں میرا ہم قلم ہو جا۔

بابائے صحافت ایک قلمی مجاہد تھے انہوں نے اپنی قلم سے تلوار کا کام لیا۔ انہوں نے نظم و نثر میں قادیانیت کا تعاقب کیا۔اس دور کے فتنہ کو دھتکارتے ہوئے کہا ”کہہ دو مرزا سے کہ خاکِ کعبہ اْڑ سکتی نہیں اپنے دل سے یہ تمنائے جنون پرور نکال۔ پھر لکھتے ہیں۔۔ ”نبی کے بعد نبوت کا اعادہ ہو جسے ہر ایسے بطل خرافات سے خدا کی پناہ۔” آپ نے قادیانیت حقیقت کی اپنے شعر میں تشریح کرتے ہوئے کہا۔

”قادیانیت سے پوچھا کفر نے تو کون ہے؟ ہنس کے بولی آپ ہی کی دلی دیوانی ہوں میں۔ شاعری میں آپ کو فی البدیہہ شعر کہنے میں کمال حاصل تھا۔ اکثر فی البدیہہ شعر کہتے مگر معیار کو کبھی نہ گرنے دیتے۔مولانا ظفر علی خاں سچے عاشق رسولۖ تھے نعت گوئی بھی آپ کی شاعری کا ایک عمدہ پہلو تھا: آپ کی لکھی ہوئی نعت: ”وہ شمع اْجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں اِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں” آپ کی دین اسلام اور پاک ہستیوں سے وابستگی اس نعت کے ایک ایک حرف میں بھرپور جھلکتی ہے اسی نعت کا آخری مصرعہ آپ کی دین اسلام سے کلی محبت کا واضح ثبوت ہے۔

”ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی بوبکرو عمر ،عثمانو علی
ہم مرتبہ ہیں یاران نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں۔

Journalism

Journalism

افسوس کہ آج کا صحافی صحافت کی الف ب سے بھی نا آشنا ہے برسات میں ایسے خودررو بوٹیاں بھی نہیں پنپتی جسطرح آج کل نام نہاد صحافیوں کی یلغار ہے اسی دھرتی وزیرآباد پر کہ جہاں حضرت مولانا ظفر علی خاں کا جسد خاکی مدفون ہے میں ایسے ایسے صحافی جنم لے چکے ہیں کہ جن کی زندہ ضمیری کا جائزہ لینے کیلئے کسی امتحان کی ضرورت نہیںجو اپنا حسب نسب تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائے وہ صحافتی روایات واقدار کا امین کیسے ہوسکتا ہے؟ جو چند ٹکوں پر حقائق چھپا دے ،اپنی عزت بیچ دے، صحافت کا وقار بلیک میلنگ کے نتیجہ میں داغ داغ کردے وہ صحافی نہیں صحافت کا دشمن ہوتا ہے۔

اپنی عمر سے زیادہ خود کو سنیئر لکھنے والے برسراقتدار شخصیات ، افسران کی خوشامد سے برآمد بہروپئے ،گرائمر املاء کے رموز اوقاف سے ناواقف، مختصر سی خبر کے جملوں کو ترتیب نہ دے سکنے والے ویلڈریا پھریئے تو ہوسکتے ہیں انہیں صحافی کہنا صحافت کی زبردست توہین ہے ۔آج مولانا ظفر علی خاں زندہ ہوتے تو خوشامد اور چمچہ گیری میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھنے والوں،دوسروں کے پروگراموں میں مہمان شخصیات کے کندھوں پر چڑھ کر تصاویر بنوا کر پھر خود ان تصاویر کی مختلف عنوانوں سے تشہیر کے ذریعے ذہنی تسکین حاصل کرنے والوں، اپنے منہ میاں مٹھو بننے والوں اور ان کو پروموٹ کرنے والوں کو جوتے مار مارمیدان صحافت سے باہر نکال پھینکتے کہ ان لوگوں نے مقدس صحافت کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔مولانا جیسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔

روزنامہ زمیندار کا دفتر لاہور میںاس وقت آیاجب ملکی اور عالمی سطح پر مسلمانوں پر ادبار کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہندوستان میں تقسیم بنگال منسوخ ہو چکی تھی جس سے ہندو ذہیت اور برطانوی تعصب کا پردہ چاک ہو چکا تھا۔ شدھی اور شنگھٹن کی تحریکیں زوروں پر تھیں اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ 1919ء میں جلیانوالہ باغ کا دلخراش سانحہ ہوا۔ 1929 ئمیں ہندو پبلشر راج پال نے مسلمانوں پر ایک اور وار کیا اور ایک اشتعال انگیز کتاب چھاپ کر مسلمانوں کی غیرت کو للکارا تو مولانا ظفر علی خان نے ”زمیندار” کے ذریعے مسلمانوں کو ایک بھرپور پلیٹ فارم فراہم کیا آپ کا قلم تلوار کی طرح میدان صحافتمیں فتوحات کو سمیٹتا رہا تو کبھی مسلمانوں کو ان کی حقیقت کا ادراک کروانے کا کام کرتا رہا۔

اپنی انقلابی اور پرجوش نظموں کے ذریعے انہوں نے کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیاجس کی پاداش میں انہیں متعدد بار جیل جانا پڑا۔ خصوصاً شدھی اور شنگھٹن کے حوالے سے ان کی نظم ”رگڑے پہ رگڑا” نے ہندووں میں ایک طوفان برپا کر دیا اور انہوں نے زمیندار پر پابندی کا مطالبہ کر دیا۔ ”مسلمانوں کا حقیقی درد رکھنے والے اس رہنما نے تحریک خلافت میں بھی بھرپور حصہ لیا۔

آپ نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے ساتھ مل کر اپنی پرجوش تقریروں سے مسلمانوں کو بیدار کیا اور مالی معاونت کے لئے مشترکہ کوششوں سے 6 لاکھ روپے کی خطیر رقم اکھٹی کی جو کہ ترکی بھجوائی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا ظفر علی خاں اپنی عمر کے آخری دور میں تھے۔ 1948ء میں پنجاب یونیورسٹی میں اردو کانفرنس میں شرکت کر کے آپ نے مقالہ پڑھااور اپنے ماضی کے دریا کو ایک کوزے میں بند کرتے ہوئے انہوں نے تاریخ دہرا دی۔ آخر کار 27 نومبر 1956ء کوآپ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

تحریر: عقیل احمد خان لودھی