ریاکاری اور بدگمانی اپنے اندر تلاش کیجئے

Allah

Allah

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال

اللہ تعالی اس عمل کو قبول نہیں کرتا جس میں رائی کے دانے کے برابر بھی ریا ہو ۔اس حدیث صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبارک کو بہت مرتبہ اب تک پڑھا آپ نے بھی پڑھا ہو گا ۔ اس پر سوچا نہ تھا جب سوچا تو لگا کہ ہم نے اب تک کی ساری زندگی ریا کاری میں میں گزار دی اور ڈر تو یہ بھی لگتا ہے کہ میرا یہ کہنا بھی ریا میں شمار نہ ہو جائے کہ اب میں نے اس پر غور کیا ہے اسے سمجھا ہے یعنی میں بڑا نیک ہوں ۔جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی پناہ مانگتا ہے جو اللہ تعالی نے ریاکاروں کے لیے تیار کی ہے جس میں قرآن پاک کے حافظ ،صدقہ کرنے والے ،حاجی اور جہاد کرنے والے لیکن وہ یہ سب دکھاوے کے لیے کریں۔اللہ تعالی نے ریاکار کے لیے جنت حرام کر دی ہے۔

اپنے آخرت میں کام آنے والے اعمال (نماز،روزہ ،صدقہ دیگر نیک کام )سے خود کو آراستہ ہو کر حصول دنیا اس کا مقصد ہو یعنی دنیا کمائے ۔ریا کا الٹ اخلاص ہے ریا اور اخلاص کا فیصلہ کوئی بھی دوسرا فرد کسی بھی دوسرے کے بارے میں نہیں کر سکتا کیونکہ اسکا تعلق نیت سے ہے خیال سے ہے اعمال سے نہیں ۔ریا تو ہوتا ہی نیک اعمال کے کرنے سے ہے اصل بات یہ کس کے لیے نیک کام کر رہے ہیں ۔ اگر تو اللہ کی خوشنودی کے لیے کر رہے ہیں تو اسے اخلاص کہا جاتا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ اس سے لوگ اچھا کہیں ،نیک خیال کریں ،معزز سمجھیں وغیرہ تو یہ ریا ہے اسی طرح لوگ کیا کہیں گے اس خیال سے برائی ترک کر دینا بھی ریا کی ہی ایک قسم ہے ۔اگر ہم صدقہ کریں ،یا کسی پر احسان کریں اور جس پر احسان کیا ہو اسے جتلائیں ،ایذا دیں یا اپنا مال اللہ کی راہ میں دکھاوے کے لیے خرچ کریں تو اس کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔

جو دکھاوے کے لیے لوگوں پر مال خرچ کریں ایسے فرد کو اللہ تعالی نے قرآن میں شیطان کا بھائی کہا ہے یا ساتھی کہاہے ۔سورة ماعون میں اللہ تعالی نے بے نمازی ،اور نمازی مگر اپنی نماز سے بے خبر ہونا ،دکھاوا کرنا ،لوگوں کو عام مانگنے کی چیزیں نہ دینا وغیرہ کو ہلاکت ،بربادی کہا ہے ،اور دین اسلام کو جھٹلانے والا کہا گیا ہے اسی طرح ایک حدیث کے مطابق دکھاوا کرنے والے کو اللہ آخرت میں جنت دیکھائے گا اور جب وہ اس کے قریب جائیں گے تو ان کو فرشتے واپس دوزخ میں لے جائیں گے وہ بڑی حسر ت سے واپس آئیں گے سوال کرنے پر ان کو بتایا جائے گا کہ تم تنہائی میں برے کام کرتے تھے

لوگوں کے سامنے خود کو اچھا بنا کر پیش کرتے یعنی دوغلہ پن ہونا ایسے لوگ عام طور پر لوگوں کے سامنے خود کو پارسا بنا کر پیش کرتے ہیں ۔آپ ۖ کا فرمان ہے کہ جس چیز کا تم پر زیادہ خوف ہے وہ شرک اصغر ہے ۔صحابہ نے عرض کیا شرک اصغر کیا چیز ہے ؟ تو آپ ۖ نے فرمایا ریا ۔ریا کا مفہوم یہ ہے کہ دکھاوے کے لیے نیک کام کرنا ،نیکی اس لیے کرنا کہ لوگ تعریف کریں ۔ اسے اچھا کہیں ،نیک خیال کریں وغیرہ آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور اس لیے طویل کر دے کہ دوسرا انسان اسے نماز پڑھتا ہوا دیکھ رہا ہے ۔اسی طرح صدقہ خیرات اس لیے کریں کہ لوگ اسے اچھا کہیں یہ ریا ہے ۔ہم کسی کے دل کو نہیں جان سکتے اس لیے کسی کے بارے میں کہنا کہ وہ ریا کر رہا ہے یہ درست نہیں ہے اسے بدگمانی کہیں گے جو کہ حرام ہے۔

کسی کی نیکی کے بارے میں تجسس کرنا اس کے اعمال میں ریا کاری تلاش کرنا بھی حرام ہے ہم کو چاہیے کہ ہم ریا کاری کی علامت اپنے اندر تلاش کریں اور ان سے بچنے کی کوشش کریں ۔جب ہم کسی سے کہتے ہیں کہ میں نے فلاں کی خدمت کی ہے اس کی مدد کی ہے اس پر احسان کیا ہے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں کسی کو بتانا مت ایسے کہتے ہوئے ہمارے دل میں یہ خیال ہو کہ جسے ہم کہ رہے ہیں وہ یہ سمجھے کہ کتنا نیک ہے کہ اپنی نیکی کو چھپاتا ہے ۔دوسرا ہم سے متاثر ہو جائے ۔اپنی دینی معلومات ۔خدمات،بیان کرنا اسی نیت سے کہ دوسروں پر دھاک بیٹھ جائے لوگ بہت بڑا عالم،پارسا خیال کریں ایک بار پھر اس بات کی تاکید ضروری ہے

Hypocrisy

Hypocrisy

ہم کو چاہیے ریاکاری کی نشانیاں خود اپنے آپ میں تلاش کریں دوسروں میں نہیں اسی طرح جب ہم بہت زیادہ عاجزی اختیار کرتے ہیں ایسے الفاظ کہتے ہیں جو دل سے اس فرد کے بارے میں ایسا خیال نہیں رکھتے اسے خوش کرنے کے لیے اس کی خوش آمدکرتے ہیں دل میں گالیا ں دیتے ہیں اسے بھی ریا ہی کہیں گے ایسے موقع پر خاموشی بہتر ہے۔ بے جا تعریف کرنے کی بجائے ۔ریا کاری جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے نیک کاموں میں ہی ہوتی ہے مثلا ایمان میں اگر ریا ہو تو اسے منافقت کہتے ہیں جس بارے میں قرآن پاک میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے دل میں اسلام کا انکار کرنا اور زبان سے ایمان کا دعوی کرنا مثلا (سورة منافقون آیت نمبر ایک) اسی طرح لوگوں میں خود کو نیک بنا کر پیش کرنے کے لیے جمعہ پڑھنا،سجدہ لمبا کرنا،کثرت سے تسیبح کرنا، بے

جااخلاق کا مظاہرہ کرنا،خود کو اسلامی بنا کر پیش کرنا ،اپنی نیکیاں گنواتے رہنا،وغیرہ اصل بات نیت ہے اگر کوئی یہ سب کچھ اس نیت سے کرے کہ مجھے دیکھ کر کوئی اور بھی نیکی کرے گا اور اس کا ثواب مجھے ملے گا تو ایسا کرنا جائز ہے یہ ریا نہیں ہے اسی لیے اس بات کو کئی مرتبہ دہرایاجا چکا ہے کہ ہماری نیت کو ہم جانتے ہیں اپنے دل کو ہم خود ٹٹول سکتے ہیں کہ ہم یہ کام کیوں کر رہے ہیں اس سے ہمارا مقصد کیا ہے ایسا ہم صرف اپنے بارے میں سوچیں کسی کے بارے میں منفی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ہم یہ سوچنے لگیں کہ فلاح نے جو ایسا کیا ہے وہ ریا ہے ایسا سوچنا ،کہنا،سمجھنا جائز نہیں ہے اس بدگمانی کہا جاتا ہے ۔آخر میں ایک حدیث ۖ کا مفہوم آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہو گا جب اسے لایا جائے گا

تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا وہ اقرار کرے گا پھر اللہ تعالی اس سے سوال کرے گا تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا عمل کیا ؟وہ کہے گا کہ میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کے شہید ہو گیا تو اللہ تعالی فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے جہاد اس لیے کیا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور یہ تجھے کہہ لیا گیا اس کے بعد اللہ اسے جہنم میں جانے کا حکم دے گا اور اسے گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا اس کے بعد ایک عالم کو لایا جائے گا جس نے قرآن پڑھا ،پڑھایا ہو گا ،علم سیکھا سیکھایا ہو گا

اسے بھی اللہ اپنی نعمتیں یاد دلائے گا وہ اقرار کرے گا اللہ پوچھے گا تو نے اس کے بدلے کیا کیا وہ کہے گا میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سیکھایا اللہ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے علم اس لیے سیکھا کہ تجھے عالم کہا جائے قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا پھر اسے بھی جہنم میں پھینکنے کا حکم ہو گا۔ اس کے بعد ایک مال دار آدمی کو لایا جائے گا جسے اللہ نے مال سے نوازا تھا اور وہ اللہ کی راہ میں خیرات و صدقات دینے والا تھا اللہ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا

وہ اقرار کرے گا اللہ پوچھے گا تو نے اس کے بدلے کیا کیا وہ کہے گا جہاں بھی ضرورت محسوس کی وہاں تیری راہ میں مال خرچ کیا اللہ فرمائے گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے تو نے مال اس لیے خرچ کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں اور یہ کہہ لیا گیا اس کے لیے بھی جہنم کا حکم ہو گا ۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم کو ریاکاری اور بدگمانی سے بچائے اور آخر میں ایک بار پھر یہ تنبیہ کہ ریاکاری اور بدگمانی اپنے اندر تلاش کیجئے گا دوسروں کے افعال میں نہیں ۔۔۔۔

Akhtar Sardar Chaudhry

Akhtar Sardar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال