عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی

Mirza Ghalib

Mirza Ghalib

تحریر : ایم سرور صدیقی

پاکستانی بھی عجیب لوگ ہیں شاید اس لئے عجیب وغریب خواہشیں دلوں میں پروان چڑھتی رہتی ہیں خواہشوں کے بارے میں مرزا غالب کا کہنا ہے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے پر اپنے کئی سیاستدان ایک عجیب بلکہ غریب خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں کئی ماہ قبل انہوں نے کہا تھا”دہشت گردی کے خلاف فوج اور حکومت کو ایک پیج پرآنا چاہیے، ور نہ فوج افتدارپرقبضہ کرکے ملک میں مارشل لاء لگادے” اس کے بعد بھی وہ کئی مرتبہ ایسی ہی” نیک خواہشات ”کا اظہار کر چکے ہیں جمہوری سوچ رکھنے والوں کاایسی باتیں کرنا عقل سے بعید ہے

دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والوںکو بہترین سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے اس سے ملتے جلتے بیانات سے ہر جمہوری سوچ رکھنے والے کو تکلیف ہوتی ہے یقینا یہ جمہوریت سے مایوس ہونے والی بات ہے اس ملک کی غریب عوام تک آج تلک جمہوریت کے ثمرات نہیں پہنچے اسی لئے کبھی ہم جمہوریت اور کبھی مارشل لاء کی طرف دیکھتے ہیں۔ شاید اسی لئے دنیا بھر میں ہم پاکستانیوں کو بھی عجیب لوگ کہا جاتا ہے کہ جب ملک میںآمریت ہوتی ہے ہم جمہوریت کیلئے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں

لیکن جمہوریت آ جائے توپھر آمریت کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں پاکستان کی سیاست میں گذشتہ نصف صدی سے یہی کھیل کھیلا جارہاہے ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پوری زندگی کا یہی حاصل تھا کہ ہم نے انہوں کو ہمیشہ جمہوریت کیلئے نبرد آزما دیکھا۔۔ان کا کہنا تھا لنگڑی لولی جمہوریت بھی مارشل لاء سے ہزار گنا بہترہوتی ہے اب نہ جانے کچھ لوگ کیوں جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے۔۔
عشق قاتل سے بھی ،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی
حشرمیں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اس میں کوئی شک ہ شبہ کی گنجائش نہیں کہ موجودہ جمہوریت نے عوام کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا اور حکمران مفاہمت کے نام پر مک مکا کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں یہ طرز عمل سیاست، جمہوریت اور جمہوری اداروں کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوگا جو لوگ آج عسکری قیادت کو مارشل لاء لگانے کا مشورہ در حقیقت فوج کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش ہے لیکن شاید وہ اس حقیقت سے ہم سے زیادہ با خبر ہوں گے

پاکستان کو آج جن مسائل کا سامنا ہے سقوط ِ ڈھاکہ، نام نہاد افغان جہاد، کارگل ایڈونچر، دہشت گردی کے خلاف جنگ وہ سب کے سب مسائل آمریت کی پیداوار ہیں جن کا خمیازہ مسلسل قوم بھگت رہی ہے اور 50,000 جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی اس کربناک صورت حال کے باوجودپھر ملک میں مارشل لاء کی خواہش رکھنا کتنی اذیت ناک اور کس قدر عجیب وغریب خواہش ہے۔۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ خواہش ایک اوربات کابرملا اعلان کررہی ہے کہ یہ خواہش رکھنے والے اپنے مستقبل یا پھر جمہوریت سے مایوس ہوگئے ہیں

جبکہ کچھ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جب جمہوریت بھی عوامی مسائل حل نہ کرسکے عوام میں سیاسی و معاشی بے چینی انتہا تک پہنچ جائے تو پھر غیر جمہوری قوتوںکی طرف دیکھنا فطری سی بات ہے یہ بھی ہوسکتاہے یہ خواہش نیک نیتی پر مبنی ہو کہ کسی طرح پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے اپنے مستقبل سے مایوس معاشرہ اور کر بھی کیا سکتاہے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مایوس انسان اپنے آپ کوتنہا محسوس کرتا ہے یہ تنہائی رفتہ رفتہ اس کیلئے جان لیوا بھی بن سکتی ہے لیکن جن لوگوںنے سیاست میں ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹے ہوںان کی سیاسی تنہائی اپوزیشن میں رہ کر کیسے دور ہو سکتی ہے

اپنا تو یہ حال جی ہار چکے، لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے

Pakistan

Pakistan

مایوسی کا شکار سیاستدانوں کو اس بات پر مزید مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اب پاکستان کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور جغرافیائی حالات ایسے نہیں کہ ملک میں مارشل لاء لگ سکے اب فوج کے اندر بھی کسی کی ایسی کوئی خواہش یا حسرت نہیں تمام ادارے اپنی حد میں رہتے ہوئے پاکستان کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں بلکہ ذہنی طورپر سب ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں یہ انداز ِ فکر ایک زندہ قوم کی ترجمانی کرتاہے اس لئے جمہوریت کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل تماشہ ختم ہو گیاہے ایک وزیرِ اعظم کو سزا اور نااہلی دوسرے وزیرِ اعظم پر کرپشن مقدمات کے باوجود اگر قوم نے پیپلز پارٹی کی 5سالہ حکومت کہ برداشت کرلیا ہے تو اس کا مطلب ہے

اب پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن اور تابناک ہے موجود ہ حکومت تو پھر گذشتہ دور سے نیک نام ہے اس لئے جمہوریت کے خلاف عجیب وغریب خواہشیں”بری بات” ہے اب رہی طالبان سے مذاکرات کی بات تواس وقت ملک بھر کے مسلمان دہشت گردی کے سخت خلاف ہیںہم ہر خاص و عام کو یہ صائب مشورہ دے رہے ہیں کہ دہشت گردی پر سیاست کرنے کی بجائے اگرحکومت کی معاونت کی جائے تو بہتوںکا بھلا ہو گاویسے بھی طالبان کنفیوژ لوگ ہیں جولوگ بے

گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں، عبادت گاہوں میں دھماکوں ، خودکش حملوں میں ملوث ہیں یا جو سیکورٹی اہلکاروںکو اغوا کرکے انہیں ذبح کرنے کے مرتکب ہیں،اسلا م کے نام پر فتنہ فساد بپا کررہے ہیںیا ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں یا جو آئین تسلیم کرنے سے انکاری ہیں وہ یقیناکسی رعایت کے مستحق نہیں انہیں ہر قیمت پر کچل دینا ریاست کا فرض بنتا ہے یہ پاکستان کی بقاء، وجود،سا لمیت اور مستقبل کا معاملہ ہے اس سے صرف نظرکرنا کسی طور بھی مناسب نہ ہوگا اسے کامیابی اور منطقی انجام تک پہنچانا ناگزیرہے حکمران اگر عوامی فلاح بہبودکے ایجنڈے کو نصب العین بنا لیں تو کوئی مارشل لاء کی خواہش نہ کرے ۔۔۔خوشحال، مضبوط اورروشن خیال پاکستان جس میں ترقی سب کا حق سمجھا جائے۔۔یہی حالات کا تقاضاہے اور ہر محب وطن کے دل کی آواز بھی۔ یہ کام حکمرانوںنے کرلیا تو پھر کوئی یہ کہنے کی ہمت نہیں کرے گا
عشق قاتل سے بھی ،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی