قلمی قوالوں اور میر منشیوں کے نام

Dr Tahir-ul-Qadri

Dr Tahir-ul-Qadri

تحریر :صاحبزادہ نعمان قادر

سیاسی ماحول خاصا گرم ہے ، ڈاکٹر طا ہر القادری ، عمران خان اپنی اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں اور اب تو دنیا کی احتجاجی تاریخ کے طویل ترین دھرنوں کا اعزاز بھی پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کو حاصل ہو گیا ہے ، اُدھر ”شریفین والبریفین ” برادرز کو بھی ہر جگہ ”گو نواز گو ” کے نعرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مزے کی بات تو یہ ہے کل جب میں رات اپنے آفس سے گھر واپس آیا تو میراپیا را لختِ جگرمحمدعبد الہادی مصطفائی حسبِ عادت میرے سینے سے لپٹتے ہو ئے اپنے توتلی زبان میں کہنے لگا کہ ”بابا ٹی وی پر ”گو نواز گو ” لگائو۔۔۔۔۔۔ یعنی اب یہ نعرہ بچے بچے کی زبان پر آگیا اور اس سے لگتا ہے کہ اب ”شریفین ” بہت جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں ، جس طریقے سے گزشتہ روز الحمراء ہال لاہور میں جانشین خاندانِ شریف چھوٹے میاں حمزہ شہباز شریف کا ”گو نواز گو ” کے نعروں سے سواگت ہوا

پھر آپا نثار فاطمہ کے لختِ جگر احسن اقبال کو ”خجالت ” کا سامنا کرنا پڑااور پھر اس کے بعد ماڈل ٹائون کے سر کاری سکول میں اساتذہ اور طلبہ کے ”گو نواز گو ” کے نعرے اور لاہور ہی میں چیمبر آف کامرس کے سالانہ اجلاس میں یہی نعرہ گونجنے لگا اس سے صاف ظاہر ہے کہ بس اب دکھوںکی ماری مظلوم ، محکوم سوئی ہوئی غریب عوام نے نسلی اور اصلی بھوکے شیر کی طرح نقلی شیروں کے روپ میں گیدڑنما سیاستدانوںکو ہڑپ کرنے کے لیے انگڑائی لے لی ہے ۔جن کو ہمارے مفادِ رسیا کے عاجلہ سیاستدان پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں ”خانہ بدوش ” ” دہشت گرد ” ”گھُس بیٹھیے ” ”تعفن زدہ ”کے ”القابات ” سے نواز چکے ہیں اب یہی گھُس بیٹھیے اِن کے حرام کمائی سے بنائے محلات میں گھُس کر اِن کا تیا پانچہ کریں گے تو لگ پتہ جائے گااب انشا ء اللہ کسی لُٹیرے تھندوں، موسمی جکھڑوں ، ظالم مگسیوں، جابر سیہڑوں ،ڈکیتوں اچلانوں،تنگوانیوں، قریشیوں ،لغاریوں، مزاریوں، زرداریوں، دریشکوں، ٹوانوں، چیموں ، چٹھوں ،رانوں ،ترینوں، خواجہ سرائوں،شاہوں ، ڈیزلوں کے لشکارے مارتے مرسع و مسجع غریب کا خون نچوڑ کر بنائے گئے محلات اور بنگلے سلامت نہیں رہیں گے۔

موٹر وے پر دوڑتی ان کی مرسڈیز اور گرینڈ کروزر کی ایسی ”ہوا” نکالیں گے کہ ان کا جعلی ہَوا چکنا چور ہو جائے گا، گزشتہ تین ماہ پہلے اپناایک کالم سُپر دِ قرطاس کیا تھا جس کو اندرون و بیرون ممالک میں ہزاروں قارئین نے بہت پسند کیااب گزشتہ چار دنوں سے مسلسل ای میلز ، فیس بک ،ٹوئیٹرز اور ٹیلیفون کالز کے ذریعے اندرون و بیرون ممالک سے درجنوں قارئین نے کہا ہے کہ اُس کالم کو ملکی صورت حال کے پیش ِ نظر دوبارہ”فکرِ فردا ” کے ذریعے سُپر دِ قرطاس کیا جائے ، اپنے قارئین کی خواہشات اور پسند کا احترام کرتے ہوئے اپنا کالم ”ری پبلش ” کر رہا ہوں، ہمارے ملک میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ ان گنت ”نام نہاد ” صحافی ایسے بھی ہیں جن کا رزق سیاستدانوں اور حکومتی شخصیات کے دستر خواں کی بچی کھُچی چچوری ہڈیاں اُن کا نصیب ہیں اور ایسے بچے کھُچے رزق سے ”اُن ” کی پرواز میں بھی کوتاہی آ جاتی ہے وہ جینوئن طریقے سے اپنی تخیلاتی پرواز کو جاری نہیں رکھ سکتے ، فرنشڈ اور کارپوریٹڈٹھنڈے ٹھار ماحول میں بیٹھ کر ایسے لعن طعن کا رزق کھانے سے بہتر ہے کہ ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر عزت کی روکھی سوکھی کھائی جائے لیجیے میرا گزشتہ تین مہینے پہلے لکھا گیا کالم پڑھیے اور سر دُھنیے ”گزشتہ دنوں اپنے اُستاذی المکرم حافظ شفیق الرحمن جن کو ڈاکٹر طاہر القادری نے ”لسان العصر ” کا خطاب دیا ہے

اپنی تازہ ترین تصنیفات ”غو ث ُ الوریٰ ” اور”ماواں ،ٹھنڈیاں چھاواں ”پیش کرنے گیا تو دورانِ گفتگوڈاکٹر طاہرا لقادری کا ”ذکر چھڑ گیا اُن کی انگڑائی کا ”کہ جب بھی طاہر القادری اپنی ”کچھار ”سے شیر کی طرح نکل کر غریب عوام کو شعور دلانے کی انگڑائی لیتے ہیں تو”دیہاڑی دار ” اور شریفین والبریفین ”کے نمک خوار حقِ نمک ادا کرتے ہوئے ”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ”نظر آتے دکھا ئی دیتے ہیںکیونکہ اِن ٹَٹ پونجوں کو معلوم ہے کہ اگر طاہر القادری نے انگڑائی لی تو امریکہ کے وفاداراور کوٹھے پر بیٹھی جنسی طوائف کی طرح یہ ”قلمی طوائف ”بھی جو ایڈ ہاک بنیادوں پرالفاظ کی حرمت کا ”اتوار بازار ” سجاتے ہیںاپنی دیہاڑی کھری کرنے کی لت سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ انقلابِ زمانہ میں ایسے ”قلمی قوال ”اور ”خواجہ سرائوں ”جیسی صفت رکھنے والے لوگوں کو چوک چوراہے میں اُلٹا لٹکا کرحرام کمائی سے پلی اُن کی کھال ایسے اُتاریں گے جیسے اناڑی قصائی عید ِ قرباں کے موقع پر بکرے کی اُتارتا ہے

حافظ صاحب نے بھی میری باتوں کی تائید کی اور کہنے لگے کہ بینائی سے یکسر محروم اور روشنی سے ڈرنے والی چمگادڑیں معترض ہیں کہ سورج کا چہرہ اتنا تا باں ، درخشاں ، رخشاں ، فروزاں اور روشن تر کیوں ہے ؟فارن فنڈڈ این جی اوز کی منحوس اور مکروہ شکل میں بجھی ہوئی راکھ کے بے نور ذر و ں کی طرح ”سویرے سویرے ”گنتی کے چند کالم نگاربھی جن میں ”شریفین والبریفین ”کی بے تُکی تعریف میں قلم کے ساتھ ساتھ ایڑیاںاور ناک رگڑنے والے ناروے کی سفارتکاری حاصل کرنے اور اب ادب کے نام پر کروڑوں روپے کی رقم لے کر ” بے ادبی ” کو فروغ دینے والے اور ‘ ‘جاتی اُمراء ”کی یاترہ کرنے والے بغیر ہاتھ منہ دھوئے اپنے ذہن میں من گھڑت ”نقشِ خیال ” گھڑنے والے فنا فی الحکومت ”دیہاڑی دار ” چمکتے دمکتے ستا روں پر تنقید کر رہے ہیں ، مین ہو لوں پر گندے نا لوں میں بو دینے والی گلی سڑی گار مشک اذفر کی عنبر افشانی پر حرف گیری کا شکار رہی ہے ،کالے بھجنگ کوے مور کے پروں کی چمن آرائی و دلکش رعنائی و زیبائی پر زبانِ طعن دراز کر رہے ہیں گندگی کے متعفن ڈھیر پر پڑی خشک ٹہنیاں ، صندل کی ڈالی پرطنز کر رہی ہیں اونے پونے داموں پر بِکنے والے بونے ا س وطن عزیز کوویران جزیرہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں چاند کی طرف منہ کر کے تھوکنے والے چاند کے حُسن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور ”خدمت انسانیت ” کے نام نہاد چیمپیئن کی طرح یہ دیہاڑی دار ”کالم نگار ”بھی جنہوں نے اپنے مکروہ زدہ اور منحوس چہروں پر نہ جانے کتنے چہرے سجا رکھے ہیں

وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان پھلے پھولے ، ترقی کرے ، خوشحال ہو اور یہاں پر اسلامی نظریات کی ترویج ہو وہ اپنے مکروہ اور بھیانک عزائم کے ساتھ وطن عزیز کے پسماندہ علاقوں اور جہالت کے جزیروں میں اپنے غلیظ و کثافت سے لبریز منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے طرح طرح کے کھیل ، کھیل رہے ہیں مگر ایک بات یاد رہے کہ درویش منش انسان واصف علی واصف نے کہا تھا کہ ” پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ہے ” اور سرزمین پاکستان کے لیے نیت نیتی کے ساتھ جدوجہد کرنے والے بھی ہمیشہ معاشرے کے ماتھے کا جھومرہی رہیں گے پنجاب میں دلِ مومن کی طرح کشادہ میدان ہیں تو خیبر پختونخواہ میں مردِ مجاہد کے سینے کی طرح مضبوط چٹانیں ، ایک طرف تاحدِ نگا ہ پھیلے ہوئے جنگلات کا سلسلہ ہے تو دوسری طرف بلوچستان کی سنگلاخ دھرتی ہے جس کی شریا نوں میں معد نیاتی خزانے خون کی طرح گردش کر رہے ہیں ، میلوں پر پھیلا ہوا سا حل ، بل کھاتی ندیاں ، لہراتے دریا ، آسمان کے رُخساروں پر بو سوں کی مُہریں ثبت کرتی پہاڑوں کی چو ٹیاں ، گنگناتے چشمے ، لہلہاتے کھیت ، کھلکھلاتے با غات ، مسکراتے جنگلات ، مہکتی ہوائیں ، چہکتی فضائیں ، اِٹھلاتی گھٹائیں ، رنگ بر ساتی وادیاں ، پر بتوں کی شہزادیاں ،غرضیکہ دنیا کا وہ کونسا حسین منظر ہے

جو اس سوہنی دھرتی کے دامن میں موجود نہیں ، مگر سیاست کے بے ضمیروں اور صحافت کے بے توقیروں نے اپنی غلیظ اور ” جس کا کھائیں اُسی کے گیت گائیں ” سوچ سے معاشرے کو متعفن کر دیا ہے صاحبو !جب ہمارے کالم نگار وطن کی زمین کی حُرمت اور رزق ِ حلال کی بجائے دوسروں کے چبائے ہوئے لقموں پر جُگا لی کرنے کے عادی ہو جائیں ، بلندیوں کے آکاش پر آشیاں بندی کرنے والے ”خود نمائی ” اور ”جی حضوری ”کی دلدل میں پھنس جائیں اپنی فکر کو رعنائی کے لیے نہیں بلکہ ”خود رو نمائی ”کے لیے استعمال کرنے لگیں بڑبولے سیاستدان سیاست کو عبادت کا جُبہ پہنانے کی بجائے اَمارت کا چُغہ پہنادیں ، منصف انصاف کے ترازومیں توازن پیدا کرنے کی بجائے ”لچک ”کے بہانے تراشیں ، سماجی لوگ فارن فنڈڈ ، فارن پیڈ و فارن میڈ این جی اوز کے پلیٹ فارم پر عوام میں فلاح و بہبود اور حرکت کا جذبہ پیدا کرنے کی بجائے ہنود و یہود کی سوچ اور جمود کو عام کریں مورخین آئندہ نسل کو حالات کی صحیح تصویر پیش کرنے کی بجائے در بار اور سرکار کی تا بعداری میں تاریخ مرتب کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں کھپادیں ، دانشور اپنی دانش کے گلزار نچھاور کرنے کی بجائے نفرت کے خار بر سانا شروع کردیں ، علماء دھند میں لِپٹے ماحول کو اپنی خوش الحانی سے صاف کرنے کی بجائے شعلہ بیانی سے دھند کو مذید گہرا کر دیں ، گدی نشین اپنی نگاہوں کی تاثیر سے ہزاروں سائلین کی تقدیر بدلنے کی بجائے جب اپنی نگاہیں ”مرید ” کے نذرانوں اور تحائف پر مرکوز کردیں تو ایسے ماحول کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے ہمہ جہت انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے مگر گھنٹی کون باندھے ؟

ایسے گھمبیر حالات میں قوم کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں ہوتی ہے جو اِ ن کے رِستے زخموں پر مرحم رکھ سکے حافظ شفیق الرحمن سے دوران ِ گفتگو کہا کہ یادرہے ہم نہ تو کسی کے مخالف اور نہ ہی کسی کے حاشیہ بردار ، اُٹھائی گیراور خوشہ چیں ، ہم دراصل اُس سوچ اور ذہنیت کے طرفدار ہو تے ہیں جو ملک و قوم کے لیے مخلصانہ جذبوں سے لیس ہو کر سوچتی ہے اور ہر اُس فکر اور نظریہ کی مخالفت کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں جو غلام ذہنیت کی پیداوار ہوتے ہیں اور غیروں کے اشاروں پر خود بھی ناچتے ہیں اور قوم کو بھی نچانے کی سعی لا حاصل کرتے رہتے ہیں ہم افراد کے نہیں بلکہ افراد کے ذہنوں میں پرورش پانے والی غلیظ اور تعفن زدہ سوچ کے مخالف ہیں کیو نکہ ہماری دینی تعلیمات ہمیں گناہگار سے نہیں بلکہ گناہ سے نفرت کا درس دیتی ہیں اور ایثار پیشہ وہ نہیں جو لفافہ ازم کا شکار ہوکر اپنی قلمی عصمت کو داغدار کریں اور اپنے الفاظ کو ایک طوائف کی طرح ”قلمی کوٹھے ” کی زینت بنائیں جینوئن اہلِ صحافت آئینے کی حیثیت سے گلی کی نکڑ اور چوک چوراہے پر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ قوم کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے جس کا ہمارے حکمران بُرا منا جاتے ہیں

Journalism

Journalism

ایثار پیشہ اہلِ صحافت نے ”بی بی ” ہو یا ”بابو ” پرویزِ صغیر ” ہو یا ”پرویزِ کبیر ” ”میاں ” ہو یا ”بیوی ” اِن اہلِ صحافت کی نگرانی میں شائع ہونے والے گروپ آف نیوز پیپرز کے صفحات گواہ ہیں کہ انہوں نے ہر دور ِ حکومت میںحق گوئی کا پرچم بلند کیے رکھا ہے اور اِس راست بازی کے پرچم کو کبھی بھی کسی بھی لمحے ذرا بھر کے لیے بھی سر نگوں نہیں ہو نے دیا ،سیاست کے بے ہنگم ایوان کے بازی گروں اور صحافت کے میدان کے بعض شعبدہ بازوں نے اپنی ملک دشمنی پر مبنی ”سیاسی بصیرت ” اور بے ربط و کج مج صحافتی ”دانش ”کے بل بوتے پر ملک و قوم کی بنیادوں میں گہرا شگاف ڈالنے کی بھر پور کوشش کی ہے ارباب ِ صحافت کے قلم کی روشناہی جب سیاسی پنڈتوں ، مذہبی بر ہمنوں اور فارن فنڈڈ این جی اوز کے خفیہ اور مکروہ گو شوں کو عوام کے سامنے لانے کی بجائے ان کے کار نا موں کو ”خدمت خلق ” اور ”خدمت دین ” کا چُغا و چو لا پہناتی ہے تو مو لانا ظفر علی خان ،مولانا حسرت مو ہانی ،مو لانا محمد علی جو ہر ،آغا شورش کاشمیری کی روح ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھتی ہو گی وہ قلم جس سے خالق کائنات انسان کو علم سیکھنے کا سلیقہ سکھا رہا ہے اسی قلم کی تقدیس و حُرمت کے پر خچے اُڑائے جا رہے ہیں

اربابِ صحافت نے جب سے قلم کی حُرمت کا ”اتوار بازار ” سجایا ہے دانش و حکمت ٹکے ٹوکری ہو گئی ہے لیکن صحافت کے اس ”اتوار بازار ” میں ابھی بھی ایسے نگینے باقی ہیں جن کو ماتھے کا جھومر بنانے کو جی کرتا ہے ایسے کالم نگار اور اربابِ صحافت نے ہمیشہ اس گلے سڑے معاشرے میں صندل کا کام دیا ہے اور ان کے قلم سے ہمیشہ وطن کی سا لمیت اور احترام ِ آدمیت کی تحریر ہی رقم ہوتی رہی ہے ، دس نمبرے اربابِ صحافت اور احبابِ سیاست نے بریفو کریسی اور لفافہ کریسی کی زنجیر ِ محبت میں گرفتار ہو کر ملک و قوم کی کشتی کو ساحل ِ مُراد تک پہنچانے کی بجائے ہمیشہ بھنور ہی میں ہچکولے کھانے کے لیے پھنسائے رکھاہے سچائی اور حقیقت کو اس قدر لفافوں میں بند کرنے کا میں قطعاًقائل نہیں کہ سچائی کادم ہی گھٹ جائے لیکن ہمارے ہی قلم قبیلے کے بعض ,,قلم کار ،، ”قلمی قوال ،، اور ,,میر منشی ،،ایسے بھی ہیں جو ,,لفافہ ،،لے کر سچ کو سیاہ لفافوں اور حکمرانوں کے سیاہ کر توتوں کو سات پردوں میں چھپانے کی کو شش کرتے ہیں ان کی بھی مجبوری ہے کیونکہ اسی طرز عمل سے ان کی روٹی روزی جڑی ہوئی ہے جس طرح صحافت میں چند گنے چنے ,,پھنے خانوں ،، کی اجارہ داری ہے

صحافت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح سیاست پر بھی اپنی اجارہ داری کا دعویٰ کرنے والے ,,سیاسی پنڈتوں،،کا قبضہ ہے 1948ء سے 2014ء تک پھیلی اس درد ناک کہانی میں چند گنے چنے خاندان ہی ہیں جنہوں نے ,,باری باری ،، غریب اور مجبور عوام کی قسمت کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے ۔کئی خون میں لتھڑے فسانے ہیں کئی نشے میں بد مست کردار ہیں تو کئی انا کے مارے نا خدا ،مگر سمجھے سب خود کو خدا ہی تھے اور ہیں بقول انقلابی شاعر
تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہو نے کا اتنا ہی یقین تھا
ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت سے مجھے کئی حوالوں سے شدید اختلاف ہے اور میں نے اِنہی صفحات کے ذریعے اُن پر کھل کر تنقید بھی کی ہے خاص کر غازی ممتاز حسین قادری کے مسئلے پر میں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے نقطہ نظر سے شدید اختلاف کیا تھا مگر جب اُن کی شخصیت پر”بونے ” ”تھرڈلے ”اورزمینی حقائق سے ناواقف ”قالم نگار’ ‘اُنگلیاں اُٹھا رہے ہیں جن کو صحیح معنوں میںقلم پکڑنا بھی نہیں آتا ،لکیرکے فقیر نظر آتے ہیںآج ” نقشِ خیال ” قوم کے سامنے لا رہا ہوں کہ کون کون سا” قالم نگار ” ”سویرے سویرے ” کس کے دستر خواں سے چچوری ہڈیاں چوستا ہے ، ہمارے ہی شہر کے ایک جمہوریت پسند اور انقلابی ذہن رکھنے والے شاعر جناب ِ عقیل احمد رشید نے بہت خوبصورت بات کی ہے

ہے کام دلوں کی ترجمانی کرنا
ہو ظلم جہاں بیاں کہانی کرنا
ایوانِ یزیدیت میں حق کہتا ہوں
ظلمات کی ختم حکمرانی کرنا

کیونکہ ہم نے ہمیشہ صدائے حق بلند کی ہے اور ہمارے دامن میں یہی ایک سو غات ہے جو ہمیں دوسروں سے جُدا کرتی ہے بقول ِ شاعر
ہاتھوں میں مرے قلم ہے کشکول نہیں
انسان ہے انمول کوئی مول نہیں
دن رات ہے حُرمت ِ قلم پیشِ نظر
ہوں حق گو نگارش میں کہیں جھول نہیں

ایک اور جگہ لکھتاہے اور یقیناََ ایسے اہل ِ صحافت کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ قلم کی حُرمت کو پیش ِ نظر رکھا ہے اور اپنے دامن کو ”دیہاڑی کی صحافت ” سے آلودہ نہیں ہو نے دیا اور حقیقی معنوں میں سوسائٹی میں شعوری کلچر کو عام کیاہمارے ملک میں دیہاڑی کلچر عام ہے ، ایسے نام نہاد لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو گلے میں کسی ڈمی اخبار کا کارڈ لٹکائے سارا دن دفتروں میں دیہاڑی کے چکر میں خجل خوار و ذلت کی تصویر بنے آوارہ اوربھکاری لوگوں کی طرح پھرتے رہتے ہیں رباعی ملاحظہ کیجئے

معاشرے کو صحافی شعور دیتے ہیں
چراغ ِ طور جلاتے ہیں نور دیتے ہیں
نئی سحر کا وطن کو ظہور دیتے ہیں
سُنا کے پیار کے نغمے سرور دیتے ہیں

ہمارے معاشرے کے جو حالات ہیں درج ذیل ایک اور نظم پڑھ کر سب کچھ آشکار ہو جائے گا کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے آفاقی اور کائناتی نظریے کی بنیاد پر معرض ِ وجود مملکت میں جاگیر دار ، سرمایہ دار ، زردار اور زور دار کے پالتو کُتوں اور گھوڑوں کو تورہنے کے لیے گرم مخملیں بیڈ اور کھانے کے لیے سیبوں کے مُربے”نصیب ” ہو رہے ہیں مگر دوسری طرف اُسی جاگیر دار کے ووٹرز کا بچہ دودھ کے چند قطروں کو ترس رہا ہے نظم ملاحظہ کیجئے !
بھوک افلاس کے عفریتوں کو
دیکھتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں
کتنے قاسم ، کتنے ٹیپو
بچپن ہی میں مر جاتے ہیں
ماں کی جھولی خالی کر کے
قبروں کے منہ بھر جاتے ہیں
فاقوں کی اِک نائو بنا کر
دریا پار اُتر جاتے ہیں
یہاں کُتوں کو ملتا ہے سب کچھ
بچے بھوک سے مر جاتے ہیں

Politics

Politics

صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی رحمة اللہ علیہ نے ایک موقع پر منہا ج یونیورسٹی میں بطور مہمانِ خصوصی طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” ہمارے ہاں سوچ کے دو دھارے چل رہے ہیں، ایک سوچ یہ ہے کہ ”شریف لو گوں کا سیاست سے کیا کام اور واسطہ ؟اور دوسری سوچ یہ ہے کہ ”شریف لوگ خود آگے بڑھ کر سیاست میں کردار ادا کیوں نہیں کرتے تاکہ معاشرہ سیاسی گند سے پاک ہو سکے با دی النظر میں دو نوں با توں میں وزن ہے کیو نکہ مو جو دہ سیاسی کلچر میں ایسی کون سی خوبی ہے کہ شریف آدمی اس سے ربط و ضبط پیدا کرے اور ہماری سیاست کا چلن ہی ایسا ہے کہ صالح عنا صر اس کے ساتھ چل ہی نہیں سکتے اور ساتھ ہی یہ خواہش اور مطالبہ بھی بہر حال جا ئز ہے کہ شرفاء عمر بھر کڑھنے کے بجائے خود سیاست میںفعال کردار ادا کریں گے اگر وہ خود اس میدان میں نہیں اُتریں گے تو ظاہر ہے

اس پر شورہ پشت چھائے رہیں گے ہما رے خیال میں یہ دو نوں با تیں درست ہو نے کے با وجود ان پر عمل کرنا بہت تکلیف دہ اور مشکل امر ہے جب تک قوم کے اجتماعی مزاج اور اس کی مجموعی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اس وقت تک شریف لوگ ”کھُڈے لائن ” لگے رہیں گے اور جو افراد جی کڑا کر کے سیاست میں وارد ہوں گے ان کے دامن میں سوائے محرومیوں اور ما یو سیوں کے اور کچھ نہیں ہو گا علامہ اقبال نے کہا تھا
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

اور اس کے مقابلے میں ” سیاستدان ” بننے کے لیے بھی چار عناصر درکار ہیں نمبر 1۔برادری نمبر 2۔دولت نمبر 3۔غنڈہ گردی نمبر4 ۔ہوس اقتدار ۔۔۔۔۔۔۔ہر شخص ٹھنڈے دل اور کھلی آنکھوں سے سوچے اور دیکھے کہ جب ان عناصر کا مرکب ہی کامیاب سیاستدان (اچھا سیاستدان نہیں )بن سکتا ہے تو پہلے ہی مرحلے میں شریف آدمی کا پتہ کٹ جا تا ہے اگر وہ بہت ہی نیک جذبوں اور خدمت قوم کے ولولوں کے ساتھ سیاست میں قدم رکھنا بھی چا ہے تو پہلی ہی گیند میں ”کلین بولڈ ” ہو جا ئے گا تو اس رسوائی سے بہتر نہیں کہ اکھاڑے میں اترے ہی نہیں ، یہ طعنہ اپنی جگہ کہ جب اچھے لوگ سیاست میں نہیں آئیں گے تو بڑوں سے نجات کیسے ملے گی ؟ لیکن اس کا کیا جواب ہے کہ جو شرفاء سیاست میں ہیں ان کی کون سی آبرو ہے ؟کہ باقی ماندہ صالح افراد بھی پگڑی ہاتھ میں لیکر اس کوچے سے گزریں ، اچھے افراد کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی کوئی برادری نہیں ہو تی اور اگر ہو بھی تو اسے اپنے ساتھ ملا کر نہیں رکھ سکتے کیونکہ برادری وا لوں کے تقاضے پورے کرنا کسی شریف آدمی کے لیے ممکن نہیں اس لیے کہ ” برادری سسٹم ” میں چور اور سعد نہیں دیکھا جا تا حق نا حق کا امتیاز نہیں برتا جا تا ، جائز نا جائز کا فرق نہیں کیا جاتا ، ظالم اور مظلوم کو الگ الگ خا نوں میں نہیں رکھا جا تا ، برادری میں دھرم کا نہیں دھڑے کا ساتھ دیا جا تا ہے

خدا اگر اپنے لاریب کلام ، رسول اللہ ۖ اپنی پاک حدیث اور امام اپنی فقہ کے ساتھ ایک طرف ہوں مگر برادری کا فیصلہ اس سے مختلف ہو تو برداری کو مقدم رکھنا پڑتا ہے ورنہ آپ کے ہاتھ میں نری حق پروری آئے گی برادری چھوٹ جائے گی اور یہی معاملہ دولت کا ہے دولت کی اپنی نفسیات ہے اور شرافت کی اپنی نفسیات !معدودے چندافراد کو چھوڑ کر ہمارے ہاں کے ارباب زر و جاگیر کا شجرہ نسب کسے معلوم نہیں اور ان کے ہاں دولت کہاں سے آئی ہے اس کا ذریعہ کس سے ڈھکا چھپا ہے ؟ ایک شخص اپنے ضمیر اور ملی مفاد کو گروی رکھ کر دولت سمیٹتا ہے بلاشبہ وہ دولت مند تو ہو جائے گا مگر شریف نہیں رہے گا انگریز کے بوٹ چاٹنے سے بندہ درہم و دینار تو پالے گا لیکن اپنی عزت گنوا بیٹھے گا افسروں سے ملی بھگت کر کے کسی کی زمین پر قبضہ کر لینا ، بیوہ سے چھت چھین لینا ، کسی کی مجبوری کو خرید لینا اور خونی رشتوں کو خون میں نہلا دینا بے شک دولت کے حصول کا کامیاب طریقہ ہے مگر یہ شریفانہ بود و باش بھی ہے ؟اس کا جواب نفی میں ہے

اب بتایا جائے کہ شریف آدمی دولت کیسے کمائے اور دولت کے ذریعے کامیاب سیاستدان کیسے کہلائے ؟رہ گئی غنڈہ گردی تو ظاہر ہے ایک انسان یا شریف ہو تا ہے یا غنڈہ !شرافت اور غنڈہ گردی کا ”حسین امتزج ”ابھی کوئی بھی مفکر نہیں ڈھونڈھ سکا ۔۔۔۔۔سیاست میں آ نے کے لیے چوتھا عنصر ”ہوس اقتدار ” ہے اور وہی لوگ سیاست کی اگلی صف میں نظر آتے ہیں جنہیں اقتدار کی ہوس پچھلی صفوں میں بیٹھنے نہیں دیتی اگلی صف میں بیٹھنے کے شوق میں وہ وفا داریاں بدلتے ہیں حکمرا نوں کے لیے قصیدے گھڑتے ہیں دن کی روشنی میں پیمان باندھتے اور رات کی تاریکی میں اپنا عہد توڑتے ہیں کسی کے پائوں پکڑ کر اور کسی کی پگڑی اُچھال کر اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ اگلی صف میں جگہ پائیں عام لوگوں کی یہ خواہش کہ شریف آدمی کو سیاست کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہیے کسی حد تک نیک خواہش ہے کیونکہ شریف انسان کے لیے بہر حال لو گوں کے جذ بات ہوتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ شریف آدمی اپنا سر مایہ عزت با زار ِ سیاست میں لٹا دے لیکن دوسری طرف یہ سوچ ” فالج زدہ ” بھی ہے کہ عام لوگوں نے یہ ذہنی سمجھوتہ کر لیا ہے سیاست بس تھانے کچہری کا نام ہے

چونکہ شریف آدمی یہ فن نہیں جانتا اس لیے اس کو سیاست سے دور رہنا چا ہیے عہد حاضر کی دم بریدہ سیاست کے ساتھ یہ سمجھوتہ بہت برا دھوکہ ہے ہما رے عوام یہ تو دیکھتے ہیں کہ ان کے سیاسی نمائندے ان کے لیے تھا نے کچہری جاتے ہیں اور ان کا بندہ چھڑا لاتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ان کا آدمی حوالات اور جیل میں پہنچا کیسے تھا ؟یہی چھڑانے والے ہی اسے وہاں پہنچانے والے تھے یہ ”ڈبل گیم ”نہ ہو تو ایسے لوگوں کو سیاستدان کون مانے گا ؟جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شریف لوگ سیاست میں آئیں تاکہ سیاسی کچرا صاف ہو ان کی نیت بھی اچھی ہے لیکن کوئی انہیں آنے دے تو سیاست میں آئیں وہ افراد جن کی امانت ، دیانت ، اہلیت اور صداقت پر اہل وطن نچھاور ہوتے ہیں جونہی ان میں سے کوئی سیاست میں قدم رکھتا ہے اس کا ڈھول پٹ جا تا ہے اور وہ دور کی کوڑی لائی جاتی ہیں کہ جو باتیں کرا ماََ کاتبین اپنے دفتر میں نہیں لکھ پاتے وہ دنیا کے ”منکر نکیر” اپنے ذہنوں میں ”نقشِ خیال ”گھڑ کے ”سویرے سویرے ” اخبا رات میں لے آتے ہیں اِ ن ”قلمی قوالوں ”کے تبصرے اور تجزیے پڑھ کر اب تو لگتا یہی ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں گو یا ہما رے معاشرے نے طے کر رکھا ہے

دائرہ سیاست سے با ہر جو چاہے اپنی صلاحیت ، اہلیت اور قابلیت کا لوہا ہم سے منوالے اور اپنی صداقت اور لیاقت کا ہم سے کلمہ پڑھوا لے لیکن وہ سیاست میں آیاہے اسے اپنا شجرہ نسب سننا پڑے گا گو یا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہم شریف ، شائستہ ، ایماندار ، صاحب کردار اور امین و عادل شخص کو پسند کرتے ہیں مگر سیاست میں خائن اور بد کردار ہی ہمیں سوٹ کرتے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری کی مخالفت وہی لوگ کر رہے ہیں جو بد دیانت اور خائن ہیں اگرعرفان صدیقی،عطا ء الحق قاسمی،سلیم صافی ،ہارون الرشید اور نذیر” ناجی ”ٹائپ ”میرمنشیوں”کو ایک منٹ بھی ڈبن پورہ میں رات بسر کرنا پڑے تو چینی ،آٹے کا بھا ئو معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح مچھر رات کو ساکنین ڈبن پورہ کا ”سواگت ”اور عزت افزائی کرتے ہیںملک کے چندپوش ایریا ز کے علاوہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ان علاقوں میں اگر آپ کو کچھ راتیں اور دن گزارنا پڑ جائیں تو آپ نون لیگ کے قصیدے بھول جائیں گے اور سارا دن اپنے جسم کو خارش کرتے گزار دیں گے ملک کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، اُبلتے گٹر ،بہتی نالیاں ، دھوواں چھوڑتی گا ڑیاں اور کانوں کے پردے پھاڑتا بے ہنگم ٹریفک کا شور اِنہی خائن حکومتو ںکاشاخسانہ ہے

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر !صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی/فکرِفرد
ا03314403420