جلسے میں ’مسلمانوں کے قتل عام‘ کی تقاریر، تفتیش شروع

Protest

Protest

نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی پولیس نے بتایا ہے کہ ایک جلسے میں مسلمانوں کے ’قتل عام‘ کی تجویز پیش کرنے کی انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔ جلسے میں ایسی تجویز انتہاپسند ہندو مقررین نے پیش کی تھی۔

نئی دہلی پولیس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کی رواں مہینے دسمبر کے اوائل میں منعقد ہونے والے ایک جلسے میں مسلمانوں کے مبینہ قتلِ عام کی پیش کردہ تجویز کے حوالے سے فوجداری تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

دریائے گنگا ‘مسلمانوں کے غلبے کے بجائے بھارتی غلبے کے بارے میں فکر کریں‘ آر ایس ایس سربراہکے کنارے پر آباد ہندو مت میں مقدس سمجھے جانے والے شمالی شہر ہریدوار میں اس جلسے کا انتظام انتہائی سخت موقف رکھنے والے ہندوؤں نے کیا تھا۔ اس جلسے میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کم از کم ایک اہم رکن نے بھی شرکت کی تھی۔

مبینہ قتلِ عام کی بات
ہریدوار میں منعقدہ جلسے میں ﺍیک انتہاپسند ہندو خاتون رہنما نے کہا کہ چند سو ہندو اگر مذہب کے سپاہی بن کر بیس لاکھ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں تو وہ فاتح بن کر اُبھریں گے۔ اس خاتون رہنما نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ایسا کرنے سے ہندو مت کی اصل شکل ‘سناتن دھرم‘ کو تحفظ فراہم کرنا ممکن ہو گا۔ اس خاتون رہنما کا نام سامنے نہیں آیا ہے۔ اس خاتون مقرر نے ہندوؤں سے یہ بھی کہا کہ وہ مسلمانوں کو ہلاک کر کے جیل جانے سے مت گبھرائیں۔

‘ناتھو رام گوڈسے کا احترام کریں‘
جلسے میں اسی خاتون نے لوگوں کو تلقین کی کہ وہ ناتھو رام گوڈسے کو سراہا کریں۔ ناتھو رام گوڈسے وہی انتہاپسند ہندو تھا، جس نے سن 1948 میں عدم تشدد کا پرچار کرنے والے ممتاز سیاستدان اور برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے اہم ہندو رہنما موہن داس کرم چند گاندھی المعروف مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ملک کی مسلمان اور دوسری اقلیتوں پر ظلم و جبر ڈھانے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ بی جے پی اِس الزام کی تردید کرتی ہے۔

‘مرنے کے لیے تیار ہو جائیں‘
انتہاپسند ہندوؤں کے جلسے کے ایک مقرر پربھو ڈھنڈ گیری نے شرکاء سے کہا کہ وہ مرنے یا مارنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس لیڈر نے جلسے میں مسلمانوں کے قتلِ عام کو ‘تطہیر یا صفائی‘ کا نام دیا۔

گیری نے اپنی تقریر میں کہا کہ میانمار کی طرح پولیس، سیاستدانوں، فوج اور ہر ایک ہندو کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے اور اسی سے ملک میں ”صفائی‘‘ ہو گی۔ یہی انتہا پسند ہندو لیڈر پربھو ڈھنڈ گیری اکثر بی جے پی کے اہم لیڈران کے ساتھ مختلف تقریبات میں اکثر موجود ہوتے ہیں۔

اسی جلسے میں ایک اور مقرر نے کہا کہ کاش وہ مودی سے قبل کے حکمران ٹولے کو ہلاک کر سکتے۔ مودی حکومت سے قبل بھارت پر موجودہ اپوزیشن جماعت کانگریس کی حکومت تھی۔

بھارت میں مذہبی کشیدگی کے دوران خاص طور پر اقلیتی آبادی کی جان و مال کو شدید خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے

ایک دوسرے مقرر نے کرسمس پر مختلف ہوٹلوں کے نام پیغام دیا کہ وہ مسیحی تقریبات کا اہتمام کرنے سے گریز کریں۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ اس وقت بھارت میں مسلم اور مسیحی اقلیتوں کو تشدد اور ہراسانی کا سامنا ہے۔

مسلمانوں کا ردعمل
بھارت کے مسلمان رہنما اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اس انتہا پسند ہندو خاتون مقرر کی عام ہونے والی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہندو انتہاپسندوں کا سارے ملک میں نسل کشی کے جذبات کو ابھارنے کا ایک واضح اشارہ ہے۔ مسلم کمیونٹی کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل حملوں میں اضافہ اور دھمکیوں میں شدت دیکھ رہے ہیں۔

ہریدوار کے اس جلسے اور وہاں خاتون مقرر اور دوسری تقاریر کے حوالے سے مودی حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔