تذکرہ مشرف کے خلاف کیسوں کا

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

سابق صدر اور ڈکٹیر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے کیسوں کا احوال آجکل ہر زبان پر عام ہے ۔اور ملکی سیاست سے ذرا سی دلچسپی رکھنے والا آدمی بھی ان کیسوں کو نہ صرف بغور دیکھ رہا ہے بلکہ ان پر فیصلہ بھی چاہتا ہے یہ کیس نہ صرف مشرف کی قسمت کا فیصلہ کریں گے بلکہ اگر انصاف سے کام لیا گیا تو ہمارے مستقبل کی سمت کا بھی تعین کر دیں گے مگر یہاں کچھ سوالات اور کچھ اخدشات و اندیشے بھی جنم لیتے ہیں ذیل میں ان خدشات اور سوالات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے کیسز میں سر فہرست کیس آرٹیکل 6 کے نفاذ کا ہے ملک میں موجود کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس کے حق میں اور کچھ اس کے مخالف ہیں جو اسکی حمایت کرتے ہیں انکے پاس بھی ٹھوس دلائل ہیں اور جو انکی مخالفت کرتے ہیں۔

وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر آرٹیکل 6کا نفاذ کرنا ہے تو پھر پاکستان کی تاریخ میںان تمام لوگوں نے جنہوں نے آئین کو توڑا ان سب پر اسکا نفاذکیا جانا چاہیئے ۔اگر آئین توڑنے والے کے اوپر اگر اس آرٹیکل کا نفاذہوگا تو اسکا ساتھ دینے والوں پر بھی وہی آرٹیکل نافذ ہو گا جس میں بہت سے لوگ اس زد میں آئیں گے اور لوگوں کی قبروں سے نکال کر انکا کورٹ مارشل کرنا پڑیگا اور انکو سزائیں سنانی پڑیں گی اور ان اقدامات کو جائز قرار دینے والے معزز جج صاحبان کا بھی ٹرائل ہوگا جو انصاف کا تقاضا بھی ہے تو اس آرٹیکل کو سیاسی مقاصد کے لیئے تو استعمال کیا جا سکتا ہے مگر میری ناقص رائے اور معلومات کے مطابق صرف جنرل مشرف کے اوپر اسکا نفاز نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری طرف ہماری عسکری قیادت کا بھی ایک بہت بڑا امتحان ہوگا کہ وہ اپنے آپکو اس معاملے سے بالکل الگ تھلگ رکھتی ہے یا کسی ایک فریق کا ساتھ دیتی ہے دونوں صورتوں میں ہماری قیادت کے تقسیم ہونے کے خدشات ہیں تو اس مسئلے کو نہایت سنجیدگی ،بردباری اور حب الوطنی کے ساتھ دیکھنا اور حل کرنا ہوگا ورنہ ملکی حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اب مزید ملک کا وقت برباد کریں اور اس ملک کا نقصان کریں۔میری خواہش کے برعکس میری ناقص رائے میں اس مسئلے کو یہیں پہ ختم کردینا چاہئے اور ایک آئینی ترمیم لانی چاہئے جس میں سب کو آئین کی پاسداری کا پابند بنایا جائے اور اسکے بعد جو آئین توڑے تو اسکو سزا دینا آسان ہو جائیگا۔ دوسرا اہم کیس جو کہ جنرل مشرف کے اوپر لٹکتی تلوار کی طرح ہے وہ لال مسجد کا کیس ہے جسکا وہ بارہا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ وہ اس کیس کے مختار کل تھے اور یہ سارا آپریشن انکی ہدایت کے اوپر کیا گیا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ بہت مشکل فیصلوں کا متقاضی ہے۔

Police

Police

اس میں جنرل مشرف زیادہ قصور وار ہیں تو دوسری جانب وہ لوگ جو لال مسجد میں ہتھیاروں سے لیس تھے کم قصور وار۔ ایک طرف اس ملک کی عوام کے خواہشات اور مذہبی جزبات کو مجروح کرنے والا شخس تھا تو دوسری جانب ریاست کے اندر ریاست بنانے والے ۔مگر جس طریقے سے فوج کو اس مسئلے میں استعمال کیا گیا وہ نہایت ہی قابل مذمت ہے اور ناقابل معافی جرم ہے اور اسکی سزا جنرل مشرف کو دینا ہوگی کیونکہ بہت سے بے گناہ لوگ اس واقعے میں مارے گئے اور جو طریقہ ان کے ساتھ نبٹنے کا اختیار کیا گیا وہ نہایت ہی بے ڈھنگا تھا اس سارے معاملے میں فوج کا استعمال کرنا ہی نہیں چاہیے تھا اور جس طرح کا اسلحہ اس سارے کیس میں استعمال کیا گیا وہ کوئی ڈکٹیٹر ہی کر سکتا ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہماری پولیس آخر کس مرض کی دوا ہے اور اگر پولیس اتنا کام بھی نہیں کر سکتی تو پھر اسکے اوپر اتنے زیادہ وسائل صرف کرنے کا کوئی مقصد نہیں۔

ساتھ ہی ہمیں آنے والے تمام لوگوں کے لیئے یہ مثال چھوڑنا ہوگی کہ کوئی بھی شخس قانون سے بالا تر نہیں اور یہ کہ قانون شکنی آخر ایک جرم ہے اور جو لوگ بھی قانون شکنی کریں چاہے وہ مذہبی رنگ میں ہو یا سیاسی رنگ میںاسکی سزا ہونی چاہیے اور یہیں ہماری ریاست اور عدالتوں کا امتحان ہو گا۔ جنرل ( ر) مشرف کے لیئے اس سے بڑا خطرہ میرے خیال میں اور کوئی نہیں ہے اور انکے دور حکومت کا یہ سب سے زیادہ سفاک اور سیاہ ترین واقعہ یا سانحہ تھا اور انھیں آج نہیں تو کل اس کا جواب تو دینا ہو گا۔ تیسرا اہم خطرہ جو انکے سر پہ منڈلا رہا ہے وہ بے نظیر اور اکبر بگٹی کا قتل ہے۔ ان دونوں واقعات سے ہماری سیاست کا بہت گیرا تعلق ہے لیکن دونوں صورتوں میں جنرل مشرف ڈائریکٹ ملوث ہوتے دکھائی نہیں دیتے مگر غیر جانبدارانہ تحقیقات کے سلسلے میں شاید وہ اس کیس میں بھی بہت بری طرح سے پھنس جائیں کیونکہ جو طاقتیں انھیں اقتدار میں لائیں تھیں اور انکے اقتدار میں انکا ساتھ دیا انھی طاقتوں نے انھیں اقتدار سے بے دخل بھی کیا۔

Benazir

Benazir

ان ہی کی ضمانت کے اوپر وہ ملک میں واپس بھی آئے مگر ان طاقتوں کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ اپنا ایجنڈا مکمل ہونے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھنک دیتے ہیں اور انھیں ہر چیز کا سامنا کرنے کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں ۔اب نہ تو ان طاقتوں کو جنرل مشر ف تک کوئی مطلب ہے اور جنرل صاحب انکے کام کے بندے مگر ایک بات طے ہے جنرل صاحب اتنی آسانی کے ساتھ ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور انھیں اگر اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوا تو وہ ان خفیہ طاقتوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کریں گے جس سے مجھے ڈر ہے انکی جان کو بھی خطرہ ہے۔ اور ہمارے ہاں اگر لیاقت علی خان اور بے نظیر کو اگر تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکا تو جنرل صاحب کے لیئے بھی بہت مشکل ہے اور آج تک ہم لیاقت علی خان اور بے نظیر کے قتل میں ملوث خفیہ ہاتھوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ تاریخ بھی کتنی ظالم چیز ہے وہ شخس جو کل تک اس ملک کے سیاہ سفید کا مالک تھا آج بہت بے بس اور لاچار ہو چکا ہے۔جس شخص سے جنرل مشرف نے اقتدار چھینا تھا اور اسے جیل میں ڈالا تھا آج وہی شخس مسند اقتدار پہ براجمان ہے۔

وہ شخس جسکو اس نے اٹھا کر عدالتوں سے باہر پھنکوا دیا تھا وہ آج اسکی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مختار ہیں ۔وہ لوگ جو اسکو دس دفعہ وردی میں منتخب کروانے کی باتیں کرتے تھے وہ آج کسی دوسری شاخ بہ بیٹھے ہیں ۔ہر عروج کو زوال ہوتا ہے ثابت اور باقی رہنا صرف اللہ کی شان ہے یہ تمام چیزیں باقی لوگوں کے لیئے سبق آموز ہیں جب بھی انسان کو طاقت ملے تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ سب کسی کی عطا کردہ ہے اور جو ذات یہ سب عطا کرتی ہے وہ ایک دن واپس بھی لے گی، اس نے اس کا جواب بھی لینا ہے، سزا اور جزا بھی ہوگی ۔یہ اب ہم پر ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے نصیحت حاصل کرتے ہیں یا دوسروں کے لیئے نصیحت بنتے ہیں۔ لیکن قرآن کی آیت ہے جسکا مفہوم ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ اور یقینا اس طرح کی چیزوں پر غور کرنے سے اللہ پر انسان کا ایمان اور مضبوط ہوتا ہے ۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور نجات پانے والوں میں شامل کرے ( آمین)

تحریر : زاہد محمود