محسن پاکستان اور آج کا پاکستان

Bahawalpur

Bahawalpur

بہاولپور برصغیر کا امیر ترین علاقہ۔ جہاں کی عظیم درس گاہیں مفت تعلیم کی سہولت کے ساتھ سارے علاقے کے طلباء کے لیئے مرکز نگاہ تھیں، سرسبزو شاداب بہاولپور کی زمینوں کو ستلج سیراب کرتا تھا۔ سونا اگلتی زمین ، گندم، کپاس اور زرعی اجناس کے لیئے عالمگیر شہرت رکھتی تھی۔ جہاں وسیع و عریض میدانوں ، کھیتوں اور کھلیانوں میں جانوروں کے ریوڑ اس کے مناظر کو دیدہ زیب نباتے تھے۔

بہاولپور کے قدرتی حسن کو نواب خاندان کے تعمیر کردہ قلعے اور محلات چار چاند لگاتے تھے۔ نواب بہاول خان عباسی اول نے بہاولپور کو 1748ء میں آباد کیا ، طویل عرصے تک یہ ایک علیحدہ ریاست تھی۔ بہاول خان نے محمد خان گھمرانی کے اردگرد ایک دیوار تعمیر کی اور اس میں ایک بستی کا نام اپنے نام سے منسوب کر کے بہاولپور رکھ دیا۔ عباسیہ خاندان نے بہاولپور پر دو سو سال حکومت کی۔ انگریزوں نے ایک معاہدے کے تحت 1838 ء میں ریاست کے معاملات سنبھالنے کے لیئے نواب آف بہاولپور کو کہا۔

نواب آف بہاولپور کو 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ 1903 ء میں نواب بہاول خان عباسی پنجم نے ریاست کے مکمل انتظامات سنبھا ل لیئے اور علاقے کی ترقی کے لیئے تعلیمی ادارے کھولنے سمیت بے شمار اصلاحات نافذ کیں یہ وہی بہاولپور ہے جو ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی۔ اور اس کی سرکاری زبان اردو تھی۔ آزاد ریاست بہاولپور نے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ 3 اکتوبر1947 ء نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم نے پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیئے۔ نواب آف بہاولپور کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے قیام پاکستان سے بھی پہلے 52 ہزار پونڈ تحریک پاکستان کی نذر کر دیئے۔

قیام پاکستان کے بعد 1947 ء میں 10 کروڑروپے کا عطیہ دیا۔ جو آج کے حساب سے 40 ارب روپے بنتے ہیں۔ تاکہ نوزائیدہ مملکت اپنے مالی مسائل پر قابو پا سکے، ملکی سا لمیت اوردفاع کے لیئے افواج پاکستان کو ریاست بہاولپور کا فوجی سازو سامان فوری طور پر منتقل کیا گیا تھا۔ 30 اپریل 1951 ء کو اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے نواب آف بہاولپور کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کیئے جس کے ذریعے انڈیا ایکٹ 1935 ء کے تحت ریاست بہاولپور کو صوبے کا درجہ دیدیا گیا۔

وفاقی وزیر برائے ریاستی امور ڈاکٹر محمد حسین نے اس معاہدے کی تفصیلات کا اعلان باضابطہ طور پر پریس کانفرنس میں کیا یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ1951 ء تک بلوچستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا تھا۔ اور بہاولپور مغربی پاکستان کا چوتھا صوبہ شمار تھا۔ 1952 ء میں بہاولپور کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے مخدوم سید حسن محمود وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور سابق چیف جسٹس عبدالعزیز کو چئیرمین پبلک سروس کمشن بہاولپور نامزد کیا گیا تھا۔

اس وقت بہاولپور میں ایک خود مختار ہائی کورٹ بھی فنکشنل تھی۔ ون یونٹ کے نفاذ پر امیر بہاولپور نے قومی یکجہتی کے لیئے اس کو قبول کر لیا۔ ون یونٹ کا نظام وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے متعارف کرایا تھا۔ جس پر گورنر جنرل غلام محمد نے عمل درآمد کرایا۔1955 ء میں ون یونٹ کے نفاذ پر بہاولپور کادوسرے صوبوں کی طرح ون یونٹ میں بہاولپور کو دوبارہ صوبے کی حیثیت سے بحال کر دیا جائیگا۔ مگر آج تک ہر حکومت نے ہمارے ساتھ وعدہ خلافی ہی کی ہے۔

Quaid e Azam

Quaid e Azam

شاید میں نہ لکھتا مگر یہ سب باتیں مجھے اسی لیئے یاد آئیں کہ نواب آف بہاولپور جسے قائداعظم نے محسن پاکستان کہا اسکی برسی سرکاری سطح پہ نہ منائی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے میڈیا نے کوئی نشریات پیش کرنے کی زحمت کی۔ حق تو یہ تھا کہ محسن پاکستان کی برسی پر اگر پورے ملک میں نہ سہی مگر پنجاب میں تو عام تعطیل ہوتی۔

برسی مجھے سب سے زیادہ سوگوار اس لیئے بنا گئی کہ گورنمنٹ نے صرف بہاولپورمیں چھٹی کر کے اس بستی اور اس بستی کے واسیوں کو مزید سوگوار بناکر انکی عزت کو مجروح کیا ہے۔ غیرت مند قومیں اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھلا پاتیں اور جو قومیں اپنے محسنوں سے وفاداری نہیں کرتی انکا یہی حال ہوتا ہے جو آج ہماری اس قوم کو حال ہے۔

قائداعظم کی ایمبولینس میں بے یارو مددگار وفات ہو یا لیاقت علی خاں کی ایک جلسہ عام میں سر عام شہادت ، فاطمہ جناح کی المناک وفات ہو یا نواب آف بہاولپورکی برسی مجھے تو سارے المیے دکھائی دیتے ہیں۔ آج ہم جس ترقی معکوس کی شاہراہ پر سر پرپائوں رکھ کر دوڑ رہے ہیں اس میں ہمارے حکمرانوں کا بڑا عمل دخل شامل ہے۔ ہم پر ایسے لو گ مسلط کیے جاتے ہیں جنکا خلوص کم از کم اپنی عوام اور پاکستان کے ساتھ نہیں ہے۔ بیرونی اشاروں پر چلنے والے ان مقامی حکمرانوں اور غلاموں نے پوری قوم کی خود مختاری اور آزادی کو اغیار کے ہاتھوں بیچ ڈالاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ملک کو چلانے کے لیئے قرضے لیتے ہیں اور وہ قرضے چکانے کے لیئے مزید قرضے لے کر مقروض بناتے جا رہے ہیں۔

اگر ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے تو قرضوں کی بیساکھیوں کو پھینکنا پڑے گا۔ ایک ایسا ملک جس کے اندر چاروں موسم، دریا، سمندر، میدان ، پہاڑ، آبشار، معدنیات ، قدرتی وسائل اور ایک محنت کش قوم سموئی ہوئی ہے۔ اسے بھکاری قوم کی طرح اقوام عالم میں رسوا و ذلیل کیا جا رہا ہے۔ ہمیں میٹروبس اور میٹرو ٹرین کے تحفے دیئے جا رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا بنیادی مسئلہ روٹی ہے۔ حکومت روز گار کے ایسے مواقع میسر کر ے کہ غریب ونادار شخص اپنی روٹی کما سکیں۔

آخر میں اپنے وسیب کی بات کئے بغیر اس لیئے نہیں رہ سکتا کہ بندہ اپنے گھر کی بات تو ضرور کرتا ہے ۔ ایک سال گزر گیا ہے مگر دوصوبوں کے حوالے سے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا اگر اس سال کے بجٹ میں بھی صوبوں کے قیام کے لیئے کوئی رقم مختص نہ کی گئی تو ہم اسے بھی محض سیاسی وعدہ سمجھیں گے جو کہ عوام کو خواب دکھا کر تعبیر چھنینے کے مترادف ہے۔ میرے وسیب کی صورتحال پہ کسی شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ:-
زندگی تونے ہمیں قبر سے کم دی ہے زمین
پائوں پھیلائیں تو دیوار سے سر لگتا ہے۔

Mubarak Shamsi

Mubarak Shamsi

تحریر:سید مبارک علی شمسی
ای میلmubarakshamsi@gmail.com