موریا کیمپ: آگ لگنے کے ایک سال بعد بھی مہاجرین مشکلات کا شکار

Moria Camp Refugees

Moria Camp Refugees

یونان (اصل میڈیا ڈیسک) یونانی جزیرے لیسبوس پر واقع موریا کیمپ آٹھ ستمبر سن 2020 کو جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ اس آگ کی وجہ سے بارہ ہزار سے زائد تارکین وطن بے گھری کا شکار ہو گئے تھے اور ایک سال بعد بھی ان کی مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں۔

ایک سال گزرنے کے بعد بھی موریا کیمپ کے بہت سارے مہاجرین خیموں میں انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے مجبور ہیں۔

یونانی ذرائع کے مطابق موریا کیمپ کے چند مکینوں نے شاید شدید مایوسی میں یہ آگ لگائی تھی کیونکہ وہ کیمپ کی زندگی سے بہت حد تک عاجز آ چکے تھے۔ وہ اس کیمپ کی زندگی کو ‘دوزخ‘ میں رہنے کے برابر خیال کرتے تھے۔

اس آگ کی وجہ سے بارہ ہزار سے زائد افراد سردی شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی چھت سے محروم ہو گئے تھے۔ یونانی حکام نے کسی بھی قسم کی نرمی دکھائے بغیر آگ لگانے کے الزام میں چار مہاجرین کو گرفتار کر لیا تھا اور اب ہر ایک کو مقامی یونانی عدالت نے دس دس برس کی سزا سنا دی ہے۔

وزیر اعظم کیراکوس مٹسوٹاکیس کی قدامت پسند حکومت نے اپنے قیام کے وقت واضح کیا تھا کہ مہاجرین سے متعلق ایک نئی پالیسی کو متعارف کرایا جائے گا۔ انہوں نے موریا کیمپ کو بند کرنے کا بھی بیان دیا تھا۔ انسانی حقوق کے یورپی کارکنوں موریا کیمپ کو یورپ کے لیے باعثِ شرم قرار دے چکے ہیں۔

یونانی وزیر اعظم نے بتایا تھا کہ نئے کیمپوں کے مقامات کا تعین کر لیا گیا ہے اور اس وقت ایک عارضی ایمرجنسی کیمپ ماورووونی (Mavrovouni ) ساحل پر بنا دیا گیا ہے۔ ایتھنز حکومت کے منصوبے کے تحت اس میں موریا کیمپ کے مہاجرین کو چند ماہ کے لیے رکھا جائے گا اور پھر انہیں نئے کیمپ میں منتقل کر دیا جائے گا۔

اس اعلان کے بعد ابھی تک نئے کیمپ کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آئی اور ہزاروں مہاجرین ماورووونی ساحل پر قائم عارضی پناہ گاہ ہی میں خیمہ زن ہیں۔

مہاجرت پر ریسرچ کرنے والی انجلیکی دیمتریادی کا کہنا ہے کہ ایسا امکان تھا کہ پلاٹی کیمپ میں مہاجرین کو سن 2021 میں منتقل کر دیا جائے گا۔ اس کیمپ کی تشکیل و تعمیر میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔ اس تاخیر کی وجوہات میں پلاٹی کے مقام پر پہلے سے موجود آبادی کی نئے مقامات پر منتقلی اور دفتری رکاوٹیں ہیں۔ انجلیکی دیمتریادی کا تعلق یونانی دارالحکومت ایتھنز میں واقع ایک تھنک ٹینک ELIAMEP سے ہے۔

خاتون ریسرچر نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ بجلی اور پانی کی ترسیل، ٹرانسپورٹ اور تعمیراتی سامان کی فراہمی اور ان کے ٹینڈرز منظور ہونے میں بھی خاصا وقت لگتا ہے۔

اقوام متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی (UNHCR) کا کہنا ہے لیسبوس میں اس وقت بھی ساڑھے تین ہزار مہاجرین موجود ہیں اور ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ لیسبوس مجموعی طور پر سترہ ہزار سے زائد مہاجرین کا گھر ہے۔ ان میں سے زیادہ تر جل کر راکھ ہو جانے والے موریا کیمپ میں آباد تھے۔

اس یونانی جزیرے کے مقامی سیاستدان مسلسل حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ یونان پہنچنے والے نئے مہاجرین کو لیسبوس پر نہ رکھا جائے اور انہیں دوسرے یورپی ممالک منتقل کیا جائے۔