قبلہ اول پر نہیں مسلمانوں پر حملہ؟

Israel Gaza Attacks

Israel Gaza Attacks

تحریر : عقیل خان

فلسطین کے مسلمانوں پر عرصہ دراز سے اسرائیلی فوج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے مگر افسوس کہ اقوام متحدہ سمیت تمام مسلم ممالک آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ زبانی کلامی بیان بازی سے مذمت کرکے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہوگیا جبکہ سلام ہے فلسطینی بہنوں اور بھائیوں کو جو اسرائیلی فوج کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔مسلمان ممالک نمازوں میں دعا کرکے اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں مگر فلسطینی لوگوں کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھاتے بلکہ بہت سے مسلم ممالک تو اسرائیل کو تسلیم کر بیٹھے اور اور کچھ تسلیم کرنے پر سوچ رہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ آگ جس کے گھر لگتی ہے نقصان کا اسی کو پتہ ہوتا ہے باقی لوگ تو باہر سے تماشہ دیکھتے ہیں۔

ابھی رمضان المبار ک میں جمعتہ الوداع کے موقع پر نماز کی ادائیگی کے لیے ہزاروں فلسطینی مسجد اقصیٰ پر جمع ہوئے اور مسجد کے باہر احاطے میں نماز ادا کی۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور روایتی جارحیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو مسجد کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے نمازیوں پر ربڑ کی گولیاں برسائیں، آنسو گیس کی شیلنگ کی اور کریکر پھینکے جس سے 200 سے زائد فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم نے ایک اور تاریخ رقم کردی۔

بے رحم اسرائیلی فورسز نے غز ہ پر فضائی بم برسا دیئے۔ بچوں سمیت متعدد افراد کو شہید کر دیا ۔ صہیونی بمباری کے بعد غزہ میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ اس کے بعد فلسطین کی مزاحمتی تنظیم ”حماس ”نے مسجد الاقصیٰ کی بے حرمتی پر جوابی حملہ کیا۔ مقبوضہ بیت المقدس سے سو کلومیٹر دور غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر میزائل داغے۔ حملے کے خوف سے اسرائیلی پارلیمنٹ کو خالی کروالیا گیا۔ ماس نے ٹینک شکن میزائل سے اسرائیلی فوج کی گاڑی بھی تباہ کر دی۔ حماس کے حملے کے خوف سے انتہا پسند یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ میں داخلے کا فیصلہ بھی ترک کرنا پڑا۔ مسجد الاقصی کے دروازے سے واپس لوٹ گئے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق پیر کی صبح ایک بار پھر ہزاروں اسرائیلی فوجیوں نے قبلہ اول پر دھاوا بولا، بے بس فلسطینیوں پر ظلم کا پہاڑ توڑ ڈالا، نمازیوں پر ربڑ کی کوٹنگ والی گولیاں برسائیں، شیلنگ کی، بم بھی پھینکے، مسجد کے قالین کو بھی آگ لگ گئی۔ حملوں میں 300 سے زائد فلسطینی زخمی ہوگئے، کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی جرات کی دیوار بن گئے۔ اسرائیلی مظالم کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ قابض فورسز پر پتھراؤ کیا اور آخری دم تک قبلہ اول کے تحفظ کا عزم بھی کیا۔ بے رحم اسرائیلیوں نے خواتین کو بھی نہ بخشا بے دردی سے گرفتار کیا۔ بہادر فلسطینی لڑکی ہتھکڑیاں لگتے ہوئے مسکراتی رہی۔

فلسطین میں جوظلم ڈھائے جارہے ہیں اس پر مسلم امہ کی خاموشی معنی خیز ہے ۔ کیا مسلمان اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے بیت المقدس کی حفاظت بھی نہیں کرسکتے؟ کہاں 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ و لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیااور کہاں اب ہم مسلمان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کفار سے مار کھارہے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کی جو حالت ہے اس پر مسلمان حکمران آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ صرف دعاوؤں تک محدود ہیں یا زبانی کلامی خرچ کرنے پر اتفاق کیے ہوئے ہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے مگر مسلمان ہیں کہ وہ خود لات کھارہے ہیں مگر دشمنوں سے صرف باتوں تک محدود ہیں۔
سلام ہے کشمیر اور فلسطین کی عوام کو جوآج بھی مزاحمت اور جہاد و شہادت کے راستے کو اپنا ئے ہوئے ہے۔

فلسطین کی آزادی کیلئے اب تک ہزاروں قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔آج فلسطین میں ہر پیدا ہونے والے بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے، ان کے کانوں میں جو اذان دی جاتی ہے اس میں شہادت و جہاد کا پیغام دیا جاتا ہے۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کی جہادی تربیت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں، ظلم و تشدد، منافقت اورغداری کے باوجود یہاں پر فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے مکمل طو ر پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔ آج ہر فلسطینی بچہ، بزرگ، نوجوان اور خواتین اس عزم پر آمادہ نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں، لیکن اپنی دھرتی فلسطین پر ناپاک صہیونی قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اپنی دھرتی کا ایک ایک انچ اسرائیلی قبضے سے آزاد کرائیں گے۔

کہاں گیا وہ جذبہ مسلمانی ، کدھر گئے عمر کی سنت پر عمل کرنے والے دلیر سپہ سالار، کون ہے جو سنت امام حسین پر عمل پیرا ہوکر اپنے بھائیوں کو ان ظالموں سے نجات دلانے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہے ؟ کوئی نہیں ہے کیونکہ ہمارے اندر اب آخرت کی تڑپ نہیں رہی بلکہ ہم کو دنیاوی زندگی اور اسکے مال سے پیار ہوگیا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارے اندر جذبہ جہاد اور شوق شہادت مرچکا ہے اور غلامانہ ذہنیت پیدا ہو چکی ہے ۔
رمضان المبارک کے مہینے میں تمام مسلم حکمرانوں کو عہد کرنا چاہیے کہ وہ تمام ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو اان کی حفاظت کے لیے اپناسب کچھ قربان کریں گے تاکہ پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوسکے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کشمیر و فلسطین سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمانوں پرظلم ڈھائے جا رہے ہیں وہاں پر غیب سے مدد فرمائے۔ آمین

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : عقیل خان