میانمار: فوج نے نئے انتخابات کا وعدہ کیا، مظاہرین کو سنگین نتائج کی دھمکی

Myanmar Protest

Myanmar Protest

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی فوجی جنتا کے سربراہ نے ملک میں نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے لیکن گڑبڑی پھیلانے والے مظاہرین کو ’سر میں گولی مار دینے‘ کی وارننگ دی ہے۔

میانمار کی فوج، ٹاٹماڈاو، نے سنیچر کے روز یوم مسلح افواج منایا۔ اس موقع پر فوجی جنتا کے سربراہ نے اپوزیشن کی مذمت کی اور نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ دوسری طرف ملک بھرمیں مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

دارالحکومت میں فوجی پریڈ کے بعد قومی ٹیلی ویزن پر نشر اپنی تقریر میں جنرل من آنگ ہلینگ نے کہا”فوج ملک میں جمہوریت کی حفاظت کے لیے پوری قوم سے متحد ہونے کی اپیل کرتی ہے۔“

یہ پریڈ ٹاٹماڈاو کی فوجی طاقت کی نمائش تھی۔ اس میں فوجی گاڑیوں اور جنگی ہتھیاروں کے ساتھ فوجیوں نے مارچ کیا۔ روس کے نائب وزیر دفاع الیکزینڈر فومن بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ انہوں نے جمعے کے روز ٹاٹماڈاو کے سینئر رہنماؤں سے ملاقات کے دوران اپنی حمایت کی پیش کش کی تھی۔

اس موقع پر من آنگ ہلینگ کا کہنا تھا، ”روس ہمارا حقیقی دوست ہے۔“

میانمار میں یوم مسلح افواج پریڈ کے موقع پر بالعموم مختلف ملکوں کے مہمان موجود ہوتے ہیں تاہم اس مرتبہ کسی دوسرے ملک کا کوئی عہدیدار نظرنہیں آیا۔

یکم فروری کو بغاوت کے بعد ملک کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو معزول کرکے خود اقتدار پر قابض ہوجانے والی فوج کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

بغاوت کے بعد سے ہی آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر لیڈران قید میں ہیں۔ لیکن ٹاٹماڈاو یعنی میانمار کی فوج کا دعویٰ ہے کہ مسلح افواج نے حکومت کے ’غیر قانونی اقدامات‘ اور بدعنوانی کی وجہ سے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا ہے۔

من آنگ ہلینگ نے ہفتے کے روز نئے انتخابات کرانے کا وعدہ دہرایا تاہم انہوں نے اس کی کوئی مقررہ تاریخ نہیں بتائی۔

من آنگ ہلینگ نے مزید مظاہروں کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکام لوگوں کی حفاظت اور امن کی بحالی چاہتے ہیں۔

پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔

اس سے قبل جمعے کی شام کو ٹیلی ویزن پر اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا تھا”تشدد سے امن و استحکام اور سلامتی متاثر ہوتی ہے اور یہ اپنے مطالبات تسلیم کرانے کا مناسب طریقہ نہیں ہے۔“

انہوں نے کہا ”آپ کو سابقہ افسوس ناک اموات سے سبق لینی چاہئے کہ آپ بھی خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ آپ کو سر میں اور پشت پر گولی لگ سکتی ہے۔“

خبر رساں روئٹرز کے مطابق جمعہ اور سنیچر کی رات کو مظاہروں میں کئی لوگوں کی ہلاکت کی خبریں ہیں۔

سنیچر کی صبح کو میانمار کے اقتصادی دارالحکومت ینگون میں ایک پولیس اسٹیشن کے باہر مظاہرین پر سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کردی جس میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے میں دس دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

یکم فروری کے بعد سے اب تک ہونے والے مظاہروں کے دوران تقریباً 330 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

میانمار میں مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پالیٹیکل پریزنرز(اے اے پی پی) کے مطابق کم از کم پچیس فیصد ہلاکتیں سر میں گولیاں لگنے سے ہوئی ہیں۔ جس سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ سکیورٹی فورسیز مظاہرین کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہی ہے۔