قومی بجٹ، پاکستان، عوام اور حکومت کا مستقبل …؟

Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

صدر پاکستان آصف علی زرداری کو تمام قومی و عوامی مسائل سمیت پاکستان میں کرپشن کی بنیاد قرار دینے، بجلی بحران، مہنگائی، بیروزگاری، بد امنی اور معاشی و معاشرتی بربادی سمیت ڈرون حملوں کا ذمہ دار پیپلز پارٹی حکومت کو قرارینے والی میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کی نو منتخب حکومت نے اقتدار میں آتے ہی قومی و عوامی مسائل کے حل کیلئے اصلاحات کا آغاز اس طرح سے کیا کہ سب سے پہلے آصف علی زرداری پر لگائے گئے کرپشن کے تمام الزامات فراموش کرنے کے ساتھ صدر زرداری سے حلف نہ اٹھانے کا اعلان بھی فراموش کرکے نہ صرف آصف علی زرداری سے حلف اٹھایا بلکہ صدر زرداری کی مدت صدارت کی تکمیل کو بھی جمہوری روایات کی پاسداری اور جمہوریت کا استحکام قرار دیکر عہدۂ صدارت کی مدت کے خاتمے تک انہیں اسی عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور امریکی ڈرون حملوں پر کمزور سے احتجاج کے ذریعے قوم سے کئے وعدوں سے دستبرداری کا جو عندیہ دیا اس نے اس بات کو ظاہر کر دیا کہ عوام نے نو منتخب حکومت سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔

وہ پوری نہیں ہو سکیں گی کیونکہ اقتدر میں آنے والوں نے عوام کے علاوہ بھی کسی اور سے کچھ اور بھی وعدے کئے ہیں اور یہ دنیا کا اصول ہے کہ طاقتور سے کئے گئے وعدے پورے کردیئے جاتے ہیں جبکہ کمزور وعدوں کی تکمیل یا اپنے حق کے حصول کیلئے آخرت میں گریبان پکڑنے سے زیادہ اختیار کا حامل نہیں ہوتا چونکہ عوام صرف ووٹ دیتے وقت طاقتور ہوتے ہیں اور انتخابی نتائج و حکومت سازی کے بعد عوام سے زیادہ کمزور , محروم, مظلوم اور کوئی نہیں ہوتا اس لئے حکمران عوام سے کئے وعدوں کی
تکمیل سے زیادہ اقتدار میں لانے کیلئے نتائج تبدیل کرنے والوں سے کئے وعدوں کی تکمیل کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں عہدے و مراتب اور وزارتیں پانے والوں نے عوامی و قومی مفاد کے کام کا آغاز کرتے ہی وعدوں کی پاسداری کو لازم رکھا مگر نیکسٹ جنریشن پروٹیکشن فاؤنڈیشن کی جانب میڈیا کے ذریعے بار بار دیئے جانے والے بجٹ تیاری میں معاونت و تجاویز کی فراہمی کے پیغام و دعوت کو نظر انداز کردینے والے وزیراعظم اور ان کی حکومت کے، عقل کل، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو روز وتین راتوں کی شبانہ و روز محنت کے بعدایکبار پھر زرعی شعبے کو روایتی رعایت فراہم کرتے ہوئے جس قسم کاعجلت مندانہ بجٹ پیش کیا اسے، سرمایہ دار طبقہ، نے بھرپور پذیرائی عطا کی اور اسٹاک انڈیکس میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا مگر عوامی حلقوں میں اس بجٹ نے مایوسی و اضطراب کے ساتھ خوف بھی پیدا کردیا ۔

Petroleum

Petroleum

16 فیصد جی ایس ٹی میں 1 فیصد اضافہ کرکے اسے 17 فیصد کردینے سے کسی سرمایہ دار، صنعتکار یا سیاستدان و حکمران کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ ایک فیصد ٹیکس براہ راست صارفین پر نافذ کیا گیا ہے جس کا بوجھ صارفین نے ہی اٹھانا ہے اسلئے جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کے ساتھ ہی پٹرولیم مصنوعات سے لیکر، آٹے، دال، چاول، گھی، تیل، سبزی، مرغی، مچھلی اور دیگر تمام اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کو سہہ آتشہ کردیا ہے جبکہ جی ایس ٹی میں اضافے کے بعد آئندہ موصول ہونے والے بجلی, گیس اور پانی کے بل بھی عوا م کیلئے تکلیف و پریشانی کا پیغام لیکر موصول ہونے والے ہیں گوکہ سپریم کورٹ نے جی ایس ٹی میں اضافے و وصولی اور پٹرولیم قیمتوں میں اضافے پر ازخود نوٹس تو لے لیا ہے مگر عوام محسوس کررہے ہیں کہ اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ حکمرانوں کے پاس ہزاروں داؤ اور گھاؤ موجود ہوتے ہیں اور عدلیہ آئین و قانون کی محتاج ہے۔

دوسری جانب کراچی کے علاقے لیاری میں جاری مسلح گروہوں میں تصادم کے باعث گھروں میں محصور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جبکہ کراچی کے دیگر علاقوں میں ہونے والی اغوأ کی وارداتوں، ملنے والی بوری و تشدد زدہ لاشوں اور پولیس حراست میں ماؤرائے آئین و قانون ہلاکتوں پر حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت اور عدلیہ کی خاموشی نے سندھ کے شہریوں کو ایک بار پھر متحدہ کی اپیل پر ہڑتال اور کاروبار و ٹرانسپورٹ بند رکھنے کا عذاب سہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کراچی میں شہریوں پر رینجرز کے بڑھتے ہوئے تشدد اور ایکبار پھر رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کی ہلاکت کے واقعات منظر عام پر آنے کے ساتھ پنجاب میں لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس کی چڑھائی اور گھروں کے دروازے توڑ نے و دیواریں پھلانگ کر چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے خواتین سے بدسلوکی اور شہریوں پر تشدد کے واقعات نے قانون کی عملداری کے تصور کو تو نقصان پہنچایا ہی تھا۔

لاہور میں دو، رانا، وکلأ کے ہاتھوں مدعی پر تشدد و میڈیا کو دھمکیاں دینے اور وکلاء کی جانب سے چینل رپورٹرز کو زدوکوب کرنے کے واقعہ اور بار ایسوسی ایشن کی جانب ہمیشہ کی طرح وکلاء کے خلاف تادیبی کاروائی کی بجائے ان کی حمایت و طرفداری نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اب پاکستان صرف سیاستدانوں، بیورو کریسی، مافیاز اور طالبان کے ہاتھوں ہی بلیک میل نہیں بلکہ ججز بحالی کی تحریک نے جہاں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے ساتھ جن قوتوں کو پروان چڑھایا ہے وہ بھی قانون کی عین ناک کے نیچے قانون سے کھیل کر ظلم، استحصال، جبر اور تشدد کو فروغ دے رہی ہیں اور غیر جانبدار عدلیہ شاید ان قوتوں کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے عوامی کو کالے کوٹ والوں کے ظلم سے بچانے کی بجائے اپنی بحالی کیلئے ان کے ساتھ کا پاس رکچھ رہی ہے۔

Pakistan

Pakistan

اس ساری صورتحال میں حکومت، عدلیہ، سیکورٹی اداروں سے وابستہ عوامی توقعات کسی بھی طور پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیںجس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ پاکستان میں احتجاج، دھرنوں، ریلیوں، جلسوں اور ہڑتالوں کا موسم شروع ہونے والا ہے کیونکہ کرپشن کے اس معاشرے میں اداروں کی از سرِ نو اور ہالنگ, ٹیکس اہداف کی سو فیصد وصولی اور سرمایہ داروں و صنعتکاروں کے ساتھ جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی جرأت موجودہ حکومت میں نہیں ہے اسلئے اس کی تمام پالیسیوں میں، وصولی، کا محور و مرکز عام عوام ہی ہوں گے نتیجتاً مہنگائی میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہے گا، بجٹ کے بعد عوام کو مطمئن کرنے کیلئے حکومت و عدلیہ کی نورا کشتی ہوگی اور ردو بدل کے ذریعے وقتی طور پر حکومت دو قدم پیچھے ہٹ کر عدالت کے احترام کی مثال قائم کرے گی مگر روایتی طرز حکمرانی سے بھی نہیں چوکے گی اور یکے بعد دیگرے کئی منی بجٹ عوام کے مقدر میں
لکھے جائیں گے۔

کمیشن و کرپشن کے خاتمے کا وعدہ حکومت یقینا پورا کرے گی مگر کوٹے اور شراکت داری کے اصولوں کے تحت مخصوص مصنوعات پر ٹیکس کمی یا ٹیکس چھوٹ کے ذریعے مونوپلی پالیسی کے تحت منافع کمانے کی روایت کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اٹھارھویں ترمیم کا سہارا لیکر جس طرح پیپلز پارٹی حکومت نے پاور سیکٹر میں توانائی بحران کو حل کرنے کی ذمہ داری صوبوں کو منتقل کرکے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی تھی ویسی ہی کوشش اسحق ڈار کرتے دکھائی دے رہے ہیں انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو صوبائی معاملہ قرار دے دیا ہے اس طرح نجی شعبے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت سے محروم اور احتجاج پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ میاں صاحب کی حکومت ابتداء میں ہی مشکلات سے دوچار ہو چکی ہے۔

PML-N

PML-N

اگر انہوں نے ان مشکلات کو دور کرنے کیلئے اپنے وزرائ، مشیروں اور پارٹی عہدیداروں کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے تجربات سے استفادے کیلئے مشکلات کا حل ڈھونڈنے اور عوامی مسائل کو حل کرکے قوم کو ریلیف
فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی تو پھر شاید آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو موجودہ انتخابات کی پیپلز پارٹی شکست سے بھی بدترین صورتحال سے دو چار ہونا پڑیگا جبکہ حالات 2015ء کی ابتداء میں ہی نئے انتخابات کا پتا دے رہے ہیں! اس لئے میاں نواز شریف کو عوام الناس کو مہنگائی، غربت، بیروزگاری، بد امنی، دہشتگردی اور توانائی بحران سے نجات دلانے کے ساتھ گڈ گورننس کے قیام کیلئے پاکستان کی تمام قومی سیاسی قوتوں کو آن بورڈ لیکر ایک کمیٹی تشکیل دینی ہوگی جبکہ اس کمیٹی میں اقتصادی، معاشی, قانونی، عسکری و دیگر شعبہ جات کے ماہرین کی شمولیت بھی لازمی بنائی جائے اور پھر اس کمیٹی کی سفارشات کے تحت بجٹ بنانے سے لیکر دیگر تمام قومی اقدامات کئے جائیں۔

سیاسی جماعتوں کے اتحاد و اشتراک سے ملک و قوم کو مسائل و مصائب سے نکالنے میں مددو معاونت بھی ملے اور بہتر نتائج کا کریڈٹ میاں صاحب اور ان کی حکومت کو ملے جبکہ مضمرات و نقصانات کی ذمہ داری کمیٹی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں اور ماہرین پر جائے اور میاں صاحب و مسلم لیگ (ن) عوامی مقبولیت و حمایت کھونے سے محفوظ رہ سکیں! ویسے اگر میاں نواز شریف حقیقی معنوں میں پاکستان و عوام کی خدمت کرنا اور ہمیشہ کیلئے قابل قدر رہنما کے طور پر ان کے دل میں اترنا چاہتے ہیں تو انہیں نیکسٹ جنریشن پروٹیکشن فاؤنڈیشن کے تیار کردہ، دستور فلاحی ریاست، کا مطالعہ کرنا چاہئے! ہوسکتا ہے! این جی پی ایف کا تیار کردہ حکمرانی کا یہ فارمولہ و انتظامی ڈھانچہ اور عوام کی خوشحالی و ملکی استحکام کیلئے پیش کردہ تجاویز سے اتفاق و عمل سے میاں صاحب عوام پاکستان کو مطمئن کرنے, قوم کو خوشحال اور ملک کو مستحکم بنانے میں کامیاب ہوجائیں اور پاکستان کے عوام ان کے اتنا گرویدہ ہو جائیں کہ پھر اقتدار و اختیار ہمیشہ کیلئے ان کے گھر کی لونڈی بن جائے۔
تحریر: عمران چنگیزی
imrankhanchangezi@gmail.com,