نیو آرمی چیف اور میرٹ کی حکمرانی

Pakistan

Pakistan

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوج ایک طاقتور ادارے کا رول ادا کرتی آرہی ہے۔ کیا یہ حسن اتفاق ہے یا ہماری بدنصیبی یہ سیاست دانوں کی نااہلی تصور ہو گی یا پھر جرنیلوں کی سیاسی بربریت کہ ہمیں تقسیم ہند کے بعد روز اول سے ہی فوجی مداخلت کا کرشمہ ورثے میں ملا۔ قائداعظم کے گورنر جنرل بننے کے ساتھ ہی فوجی ریشہ دوانیوں کا آغاز ہو گیا۔ عبدادلرب نشتر نے قائد اعظم کو خط لکھا کہ ایوب نام کا برگیڈیر سول کاموں میں مداخلت کر رہا ہے۔ قائداعظم نے جنرل اکبر کی قمیض کے بٹن کو بھنبوڑتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ جینٹل مین نوکری کرنا چاہتے ہو تو سویلین حکومت کے احکامات پر عمل درامد کرنا پڑے گا۔ جرنیلوں نے تخت نشینی کی ہوس کے جام میں مدہوش ہوکر ایک طرف نہ صرف جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کیا بلکہ کئی امر ڈکٹیٹروں نے منتخب وزرائے اعظموں کو پابند سلاسل کیا۔

خود تراشیدہ اسلامی ڈکٹیٹر امیر المومنین نے تو 1979 میں کروڑوں پاکستانیوں کے مقبول ترین چیف ایگزیکٹو کو نام نہاد مقدموں میں پھانسی کے تختے کا دولہا تک بنا دیا۔ جرنیلوں نے پاکستان میں احسان فراموشی کی ایسی سفاکانہ تاریخ رقم کی کہ انسانیت بھی شرما گئی۔ قائد عوام بھٹو کو ضیاالحق نے پھانسی جبکہ نواز شریف کو مشرف اعظم نے پہلے اٹک جیل کی تنہائیوں میں پابند سلاسل کیا اور پھر اپنی امریت کے دوام اور طوالت کی خاطر بعد میں نواز برادران کو دیس نکالادے دیا۔ بھٹو اور نواز شریف نے ضیاالحق اور مشرف کو دیگر جرنیلوں کا حق غصب کرکے آ رمی چیف بنایا تھامگر دونوں بھٹو اور نواز شریف کو انکے اپنے نامزد کردہ میر جعفر اور میر صادق م نامی جرنیلوں نے لتاڑ دیا۔ نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو بن چکے ہیں۔ نواز شریف پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجموعی طور پر چوتھے آرمی چیف کی تقرری کرکے تاریخ رقم کریں۔

وزیراعظم کے نزدیک جنرل کیانی کے جانشین کی نامزدگی چنداں آسان نہیں ہے۔ نواز فیملی اور آرمی چیف کی ہسٹری خوشگوار نہیں ہے یہ بھی سچ ہے کہ نواز شریف فوجی گورنر کی دریافت اور جرنیلی دانشوروں کی سیاسی تربیت اور ضیاالحق کے ساتھ انکی پیری مریدی کی حقیقی تاریخ کے باوجود وہ انتہائی صبر و تحمل بردباری اور مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کریں گے۔ نواز شریف پہلے دو ادوار میں دو آرمی چیفس آصف نواز وحید کاکڑ اور پرویز مشرف کو تقرری کا پروانہ جاری کر چکے ہیں۔ وزارت دفاع 3 جرنیلوں کے نام پرائم منسٹر کو بھیجے گی جن میں سے ایک کی منظوری نواز شریف کا ائینی استحقاق ہے۔ یہ نواز شریف ہی تھے جنہوں نے 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کو فارغ کرکے ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف نامزد کیا تھا مگر جنرل محمود جنرل عثمانی اور جنرل ر عزیز نے علم بغاوت لہرایا اور بٹ کو بندی بنا کر جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی۔ نواز شریف نے 1988 و 1993 اور 1998 میں تین آرمی چیفس کو افواج پاکستان کا سپہ سالار بنایا تھا اس وقت عالمی اور ملکی معاملات اتنے گھمبیر نہ تھے مگر اب تصویر بالکل الٹ ہے۔

PM Nawaz Sharif

PM Nawaz Sharif

پاکستان کو کثیر الجہتی مصائب و الام کا سامنا ہے۔ پاکستان ایک عشرے سے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہے۔ پاک فورسز فاٹا میں اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ دہشت گردی اور خود کش بربریت کا رقص بسمل پورے عروج پر ہے۔ ناٹو فورسز نے اگلے سال کابل سے نودوگیارہ ہونا ہے۔ نواز شریف بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ پاک بھارت خوشگوار ریلیشن، برادرانہ دوستی اور تجارتی تعلقات کے بڑے داعی ہیں مگر پاک فوج بھارت کے خلاف شدید تحفظات رکھتی ہے۔ ویسے ہندوستان کے ڈیڈھ ارب ہندوستانیوں میں سے صرف 2 فیصد لوگ انڈو پاک دوستی کے پر جوش حامی ہیں۔ یوں نیو ارمی چیف اور سیاسی قیادت کے مابین سیکیورٹی سلامتی اور دفاعی امور وہ چاہے اندرونی ہوں یا بیرونی ان خارجہ پالیسی اور دفاعی حکمت عملی میں مکمل یکسانیت ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت بھی قابل دید ہے کہ نواز شریف ماضی والہ نواز شریف نہیں وہ امریت کے سانچے میں ڈھل کر کندن بن چکے ہیں۔

انکی سیاسی باڈی لینگوئج 90 کی دہائی سے قدرے مختلف بن گئی انکی پولیٹیکل میچورٹی کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ وہ اپنے بیانات کی بوچھاڑ میں قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی نوید سنائی دیتی ہے جنرل ہارون اسلم جنرل راشد اور جنرل راحیل 3 رکنی سنیارٹی لسٹ میں موجود ہیں۔گو کہ ان تینوں میں سے ایک کا تقرر نواز شریف کا آئینی استحقاق ہے تاہم تینوں میں سے سینئر ترین کو آرمی چیف نامزد کر کے میرٹ کی حکمرانی قائم کرنی ہو گی۔ ماضی کے سیاسی ادوار میں میرٹ کی ہنڈ یا بیچ چورا ہے میں بار بار ٹوٹتی رہی جسکے نتائج نے ملک کو ہمیشہ اندھی اور بند گلی میں دھکیلایہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پسند نہ پسند کے ارمی چیف کی تعیناتی نے ریاست کا شیرازہ تک بکھیر ڈالا۔ سابق ارمی چیف ضیا کو 3 جنرل وحید کاکڑ کو 2 اور چک شہزاد کے بندی مکے باز مشرف کو 2 جرنیلوں کی سنیارٹی کا قتل عام کرکے آرمی چیف تعینات کیا گیا۔

موجودہ لسٹ میں جنرل راشد محمود چیف اف جنرل سٹاف کور کمانڈر لاہور اور ایک صدر مملکت کے ملٹری سیکریٹری کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ماضی کے13 فوجی سربراہوں میں سے صرف 8 چیف اف جنرل سٹاف کے عہدہ جلیلہ تک رسائی حاصل کر سکے۔ لسٹ میں تیسرے نامزد جنرل راحیل میجر شریف شہید نشان حیدر کے بھائی ہیں وہ اجکل جی۔ ایچ۔ کیو میں پیشہ وارانہ ڈیوٹی دے رہے ہیں وہ کور کمانڈر گوجرانوالہ اور کاکول اکیڈمی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ جنرل کیانی اسی سال28 نومبر کو 3 سالہ ایکٹینشن کے بعد ریٹائر ہورہے ہیں۔کیانی کے بعد جنرل ہارون اسلم سینیر ترین جرنیل ہیں جو اہم ترین عہدوں پر اپنی جرات رندانہ خدادادصلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں۔ سوات پر صوفی محمد اور طالبان نے ریاست کے اندر اپنی نام نہاد شرعی شہنشاہت قائم کی تو پوری دنیا دہل گئی اور کہا جانے لگا کہ سوات کے بعد انتہا پسندوں کا اگلا ٹارگٹ اسلام اباد اور کہوٹہ پلانٹ ہونگے۔

General Kayani

General Kayani

کڑے اور سخت ترین لمحات میں کمانڈو جنرل ہارون اسلم صلاح الدین ایوبی کی شکل میں سوات پہنچے اور مختصر وقت میں سوات کو شدت پسندوں کے چنگل سے آزاد کروایا۔ اقوام عالم میں جنرل ہارون اسلم کو سوات اپریشن اور فاٹا میں شدت پسندوں کے خلاف کامیابیوں پر خوب سراہا گیا۔ جنرل ہارون اسلم کور کمانڈر بہاولپور ڈرائکٹر ملٹری اپریشن جیسے اپم عہدوں پر داد شجاعت حاصل کر چکے ہیں۔ افواج پاکستان کی کمانڈو ونگ سپیشل سروسز کو دنیا کی نمبر ون ونگ بنانے کا اعزاز بھی جنرل ہارون اسلم کو حاصل ہے۔یوں قانونی اور آئینی طور پر جنرل ہارون اسلم، جنرل کیانی کے بعد آرمی چیف ہونگے تاہم وزیراعظم کو 3 میں سے 1 کو نامزد کرنے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے۔ تینوں نام عالمی سطح پر شہرہ افاق ہیں۔ قوم پاکستان اپنے تینوں جرنیلوں کی شجاعت و صداقت پر نازاں ہے تاہم قوم یہ توقع بھی کرتی ہے کہ نیو ارمی چیفس ماضی کی بھیانک امریتوں کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ عدلیہ نے جنرل مشرف کی گردن میں ارٹیکل 6 کا جو شکنجہ کسا ہے۔

ججز نے امریت کے مردے کو نہانے اور دفنانے کا جوسلسلہ شروع کر رکھا ہے افواج پاکستان کو مشرفی کارگزاریوں کے خلاف عدلیہ کے فیصلوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کو جاری رکھنے میں جنرل کیانی کا لازوال کردار ہے جسے تاریخ اپنے زریں صفحات میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے گی۔ جنرل کیانی نے اپنے دور میں جہاں افواج کو پیشہ وارانہ سرگرمیوں اور نظریاتی سرحدوں کی سلامتی تک محدود رکھنے کی چنداں کوشیں کیں تو وہاں کئی نازک مراحل میں انہوں نے جمہوری عمل کی حوصلہ افزائی کر کے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی ہر گھناوئنی سازش کو ناکام بنایا۔ کیانی نے جہاں شمالی وزیرستان میں امریکی دباو کے باوجود فوجی آپریشن رد کرکے قومی خود مختیاری کا طرہ امتیاز بلند کیا تو وہاں کامیاب الیکشن کے انعقاد میں افواج پاکستان کا روز روشن کردار جنرل کیانی کی جمہور پروری کا یادگار ثبوت ہے۔

اس پر طرہ یہ کہ کیانی پہلے آرمی چیف ہیں جنہوں نے عدلیہ کے کڑوے فیصلوں کو من و عن تسلیم کر کے تاریخ رقم کی۔ اگر پاکستان کے پہلے انگریز ارمی چیف جنرل گریسی سے لیکر اولین مارشلائی سرخیل جنرل ایوب اور جنرل رانی والے آرمی چیف تک ضیاالحق سے مشرف اور پھر جنرل کیانی تک 13 فوجی سربراہوں کے امرانہ و شاطرانہ سیاسی اور خود ساختہ بھدے جمہوری کردار اور پیشہ وارانہ کیرئیر کا تقابل کیا جائے تو یہ حقیقت سفید سچ کی طرح اموختہ ہوتی ہے کہ کیانی واحد جرنیل ہیں جنہوں نے قائد اعظم کے منشور والی جمہوری سیاسی روایات کو پروان چڑھانے اورآئین کی کارفرمائی کے لئے یاد گار کردار انجام دیا۔ پوری قوم جنرل کیانی کی عظمت کو سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔

تحریر : اعجاز بٹ