نائن الیون، سی آئی اے کا تشدد اور بلیک بینرز کے انکشافات

Webinar Ali Soufan

Webinar Ali Soufan

ڈیلس (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی شہر ڈیلس میں نائن الیون کی مناسبت سے سابقہ ایف بی آئی ایجنٹ لبنانی نژاد امریکی علی صوفان کی متنازعہ کتاب “دی بلیک بینرز- ڈی کلاسیفائیڈ” پر بحث کے دوران بھیانک حقائق سامنے آئے۔

امریکا میں ورلڈ افیئرز کونسل، ڈیلس کے زیرانتظام 9/11 کے حوالے سے ایک اہم گفتگو کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب کی نظامت کے فرائض “دی نیویارکر” جریدے سے منسلک پولٹزرانعام یافتہ صحافی، لارنس رائٹ اورکونسل سے منسلک جم فاک نے انجام دیے ۔ گفتگو کا موضوع عالمی شہرت یافتہ سابقہ ایف بی آئی ایجنٹ لبنانی نژاد امریکی علی صوفان کی متنازعہ کتاب “دی بلیک بینرز- ڈی کلاسیفائیڈ” تھا۔ اس کتاب کے مطابق11/9 کے بعد سی آئی اے کے جسمانی اور ذہنی تشدد کے تفتیشی طریقے نے نہ صرف کارروائی کے مرحلے کی شفافیت کو نقصان پہنچایا بلکہ سی آئی اے کا یہ پروگرام بری طرح سے ناکام بھی ہوا۔

علی صوفان نے اس کتاب میں سی آئی اے کی پرتشدد حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جن میں زیرحراست افراد پر واٹر بورڈنگ، انہیں سونے نہ دینا، ذہنی دبا میں رکھنا، مسلسل شورمیں رکھنا، اوربرہنہ رکھنا جیسے غیر انسانی عوامل شامل ہیں۔ صوفان کے مطابق اس پرتشدد تفتیش کے نتیجے میں انہیں کوئی قابل قدر معلومات فراہم نہیں ہوئیں بلکہ قیدیوں نے تشدد سے تنگ آ کر وہ کہا جو انکے خیال میں افسران سننا چاہتے تھے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے ابن الشیخ اللبی کا نام لیا اورکہا کہ تشدد میں کی گئی تفتیش کے نتیجے میں اللبی نے صدام حسین اور اسامہ بن لادن کے بڑئے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پرساتھ کام کرنے کی ڈیٹیل فراہم کی جس کا حوالہ کولن پاول نے اپنی اقوام متحدہ کی تقریر میں بھی دیا جس کی وجہ سے عراق کی جنگ شروع ہوئی۔

سالوں کی جنگ کے بعد جب عراق سے کچھ نہیں ملا اور اللبی سے پوچھا گیا کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا تھا تواسکا جواب تھا “دن رات کے تشدد سے بچنے کے لیے”۔ صوفان کا کہنا تھا کہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 11/9 سے پہلے القاعدہ میں کل چارسو لوگ شامل تھے جبکہ آج انکی تعداد چالیس ہزارسے بھی زیادہ ہے خاص طورپرعراق کی جنگ اس تعداد میں اضافے کا سبب بنی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سکیورٹی کے فیلو ڈاکٹر اسفندیار میر نے اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سینسر شپ کے بغیر اس کتاب کا دوبارہ شائع ہونا علی صوفان کی بہت بڑی فتح ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے (ڈی) سینٹر ڈائین فائینسٹین کی سیاسی کوششوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جسکی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا۔ 11/9 کے بعد خود افادیت، تشدد اور جنگوں کو اس مسئلے کے حل کا جواز بنا کر پیش کیا گیا مگر بیس سال میں امریکا میں رائے عامہکا توازن جذباتی ردعمل سے بہت حد تک شفٹ ہوا ہے۔

صوفان کی یہ کتاب 2011 میں پہلی دفعہ منظر عام پر آئی تھی مگر سی آئی اے نے اس کتاب کے بیشترمواد کو “کلاسیفائیڈ” قرار دے کراس پر کالی لکیریں پھیردی تھیں صوفان کے مطابق سی آئی اے نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا تھا۔ مگر یہ کتاب سنسر شپ کے باوجود شائع ہوئی۔ نو سال بعد 11/9 سے چند روز قبل یہ کتاب سنسر شپ کے بغیر دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ علی صوفان کے مطابق امریکا کی تاریخ میں پہلی بار کسی انٹیلیجنس افسرکی کتاب سنسر ہوئی اور پھر وہی کتاب نو سال بعد سنسرشپ کے بغیر دوبارہ شائع ہوئی۔ وہ اسے آزادی اظہار رائے میں ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر اور “طالبان ریوائیول” کے مصنف ڈاکٹر حسن عباس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علی صوفان کی کتاب انکے ایک کورس کا حصہ ہے۔ انہوں نے صوفان کے “تعمیل اور تعاون” کے تصور کو سراہتے ہوئے کہا کہ ‘تعمیل’ میں سخت حربے استعمال ہوتے ہیں جبکہ تعاون سے معلومات ملنے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور صوفان کا نقطہ نظر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ ڈاکٹر عباس کا کہنا تھا کہ صوفان نے سی آئی اے کے پر تشدد تفتیشی طریقوں پراس وقت تنقید کی جب یہ آسان یا عام نہیں تھا ۔

صوفان کا کہنا تھا کہ 11/9 کے حملے کو ایف بی آئی، سی آئی آے کی مدد سے روک سکتی تھی مگرسی آئی اے نے اپنی معلومات ایف بی آئی کے ساتھ نہیں بانٹیں جس کی وجہ سے آج ہم ایک مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں۔ صوفان کے کردار کو کئی فلموں میں ایک نڈر اور قابل افسر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ صوفان “دی صوفان گروپ” کے سی ای او کے فرائض انجام دے رہے ہیں جو کہ عالمی سطح پر سکیورٹی اور کنسلٹنسی فراہم کرتا ہے۔