مقبوضہ کشمیر میں ڈھونگ الیکشن

Election Commission of India

Election Commission of India

بھارتی الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق انڈیا کے مختلف صوبوں کی طرح مقبوضہ جموں کشمیر کی بعض نشستوں پر بھی انتخابات ہوئے ہیں’ دوسرے لفظوں میں اگر ہم یہ کہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی الیکشن کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے سات اپریل سے بارہ مئی تک کا الیکشن شیڈول جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق دس اپریل کو بہار، چھتیس گڑھ اور ہریانہ کی طرح جموں کشمیر کی بعض نشستوں پر بھی انتخابات ہونا تھے۔

بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق ہندوستانی عوام کے منتخب کردہ 543 ارکان جن میں 131 نشستیں شیڈولڈ کاسٹ اور قبائل کیلئے مختص ہیں پر مشتمل نئی لوک سبھا یکم جون کو وجود میں آجائے گی جس کے بعد کسی بھی پارٹی کو حکومت سازی کیلئے 272 نشستوں کی ضرورت ہو گی۔ انتخابات میں 81 کروڑ 45 لاکھ افراد یعنی یورپ کی مجموعی آبادی سے زیادہ افرادکے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ یہ انتخابات 9 مرحلوں میں 12 مئی کو مکمل ہوں گے جس کے بعد توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ 16 مئی کو انتخابی نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ لوک سبھا کے انتخابات کے ساتھ ہی آندھرا پردیش ، اڑیسہ اور سکم کے انتخابات بھی ہوں گے۔ ایک ماہ تک جاری رہنے والے انتخابی عمل میں ووٹروں کی سہولت کیلئے 9 لاکھ 30 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کئے جائیں گے جہاں ووٹ ڈالنے کیلئے مشینیں استعمال کی جائیں گی۔

مقبوضہ کشمیر میں ماضی میں ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تاریخ قتل و غارت گری، دھوکہ بازی اور ظلم و جبر سے عبارت ہے۔ یہ الیکشن کشمیریوں کیلئے میٹھے زہر کی مانند ثابت ہو ئے ہیں۔حالیہ انتخابات جس کے کئی مراحل ابھی باقی ہیں’ کے شروع ہونے سے قبل مقبوضہ کشمیر کے پولیس سربراہ مسٹر اشوک پرساد نے دعویٰ کیا تھا کہ انتخابی ڈرامہ کے دوران کسی آزادی پسند کو گرفتار نہیں کیاجائے گا لیکن یہ تمامتر دعوے محض سراب ثابت ہوئے ہیں۔ بھارتی فوج، سی آر پی ایف، پولیس اور دیگر فورسز کی جانب سے پورے کشمیر میں چھاپوں، گرفتاریوں، پکڑ دھکڑ اور ظلم و زیادتیوں کی ایک باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے جس کے تحت کثیر تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

Kashmir Election

Kashmir Election

حریت پسند کشمیریوں کے گھروں پر مسلسل چھاپے مارے جارہے ہیں۔ معصوم بچوں اور خواتین کو ہراساں کیا جارہا ہے اور جس کو چاہتے ہیں زبردستی گھروں سے اٹھا کر پولیس تھانوں میں یہ کہہ کر بند کر دیا جاتا ہے کہ ان کے گھروں سے الیکشن بائیکاٹ پر مبنی لٹریچر اور اشتہارات برآمد ہوئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی کشمیر میں گرفتاریوں کی یہ مہم ان دنوں پور ے عروج پر ہے۔ جمعہ کے دن بھی درجنوں نوجوانوںکو گرفتار کیا گیا ہے۔حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی، حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق،جے کے ایل ایف کے سربراہ محمد یٰسین ملک، فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ، دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی،ظفر اکبر بٹ، نعیم احمد خان و دیگر کی طرف سے الیکشن بائیکاٹ کے حوالہ سے گرفتاریوں کے باوجود بھرپور مہم چلائی جارہی ہے۔اگرچہ صورتحال یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے ان کی الیکشن مخالف مہم پر عملا پابندی لگا رکھی ہے اور انہیں لوگوں تک نہیں پہنچنے دیا جارہا مگر اس کے باوجود کشمیریوں کے جذبات دیکھنے کے لائق ہیں اور وہ جوق درجوق الیکشن مخالف ریلیوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ بھارتی فورسز اور کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے ان دنوں لوگوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اس سے الیکشن ڈرامہ ایک فوجی آپریشن اور یکطرفہ کھیل ثابت ہو گیا ہے جس کی کوئی اعتباریت اور اہمیت باقی نہیں رہی۔

حریت پسندوں کی گرفتاریوں ‘ سرگرم کشمیری نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں اور ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کیلئے بھارتی فوج کو خاص طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔فوج کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس الیکن ڈرامہ کو دنیا کے سامنے ایک کامیاب عمل کے طور پر پیش کیاجائے ۔ لوگوں کو قبل از وقت خوفزدہ کیاجارہا ہے تاکہ وہ مجبور ہو کر ووٹنگ میں حصہ لیں۔مقبوضہ کشمیر میںجاری گرفتاریوںاور پکڑ دھکڑ کے خلاف حریت کانفرنس (گ)کے قائم مقام چیئرمین غلام نبی سمجھی کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوا جس میں حریت کی ممبر تمام تنظیموںکے نمائندگان نے شرکت کی جس میں کہا گیا کہ آزادی پسندوں کے لیے اس وقت کی سب سے بڑی ترجیح الیکشن ڈرامے کے خلاف پُرامن مہم چلانا ہے اس سلسہ میں سب کو یکجان ہوکر اس اہم مسئلے کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس وقت دوسرے ضمنی مسائل کو اٹھارہے ہیں، وہ شعوری یا غیر شعوری طور اہم قومی مسئلے سے توجہ ہٹانے کے باعث بن رہے ہیں اور ان کی وجہ سے عوام میں بھی انتخابی ڈرامے کے بارے میں ایک ابہام پیدا ہوجاتا ہے۔ حریت کانفرنس اصولی طور جمہوریت کی مخالف نہیں ہے’ البتہ جموں کشمیر میں تعینات ساڑھے سات لاکھ افواج کی موجودگی میں اس عمل کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حریت کانفرنس (گ) کا یہ موقف بالکل درست ہے ۔مقبوضہ جموں میں دس اپریل کو جو الیکشن ہوئے ہیں ان میں بدترین دھاندلی عمل میںلائی گئی ہے۔ ایک طرف بھارتی فوجی سول کپڑوںمیں ووٹ ڈالتے رہے تو دوسری جانب فہرستوں سے مسلمانوںکے ووٹ ہی سرے سے غائب کر دیے گئے۔راجوری ضلع کے کئی پولنگ مراکزمیں ووٹنگ کے دوران نابالغ بچوں کو دوسرے لوگوں کی ووٹر سلپ کے ساتھ پایا گیا۔ درہال علاقہ میں اٹھارہ برس سے کم عمر بچوں سے ہندو امیدواروں کو ووٹ ڈلوائے گئے۔ یہ خبریں خود بھارتی میڈیانے دی ہیں اور کہا ہے کہ ایسے بچوں سے جب ان کی عمر پوچھی گئی تو وہ وہاں سے لائن چھوڑ کر رفو چکر ہو گئے۔

یہ سب کچھ بھارتی ایجنٹوں، ایجنسیوں اور الیکشن ملازمین کے سامنے ہوتا رہا مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ جو برسوں قبل فوت ہو چکے ہیں ان کے ووٹ ڈالے جاتے رہے۔ انہی اطلاعات پر راجوری اور پونچھ اضلاع کے مختلف علاقوںمیں زبردست جھڑپیں ہوئیں اور کئی افراد زخمی ہو گئے۔ ہندو انتہا پسند جموںمیں خاص طور پر سرگرم رہے اوراپنے امیدواروں کو کامیاب کروانے کی کوششیں کی گئیں۔جن علاقوںمیں مسلمانوں کے ووٹ ڈالے جانے کا اندیشہ تھا وہاں بہت سے پولنگ مراکزمیں الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں ہی خراب پائی گئیں تاکہ لوگ ہندوئوں کے نمائندوں کے خلاف ووٹ نہ ڈال سکیں۔مقبوضہ جموںمیں بعض علاقے جہاں مسلمان قابل ذکر تعداد میںہیں وہاں مسلمانوں نے شکایات کیں کہ انہیں پولنگ بوتھ ہی نہیںمل سکے۔ اسی طرح ایک سے دوسرے پولنگ بوتھ کے درمیان کئی کئی کلومیٹر کا فاصلہ رکھا گیا تا کہ وہ ووٹنگ میں حصہ نہ لے سکیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ جموں کشمیر کے عوام نے اپنی آزادی کیلئے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔

Kashmir

Kashmir

بھارتی پارلیمنٹ کیلئے ہونے والے یہ الیکشن اگرچہ تعمیر و ترقی ، بجلی ،سڑک، پانی ،نوکری اور روز مرہ مسائل کے حل کے نام پر لڑے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں کامیاب ہونے والے لوگوں نے ہمیشہ بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرے اور کٹھ پتلی حکومتوں نے مقبوضہ کشمیر پر نئی دہلی کے قبضہ کے راستے ہموارکئے ہیں۔جموں کشمیر میں 1947 کے بعد سے ابتک ہونے والے ہر الیکشن ڈرامے کا یہی مقصد ہوا کرتا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ان الیکشنوں کو کشمیریوں کے مفادات کی بیخ کنی کے سو کوئی اور نام دیا جا سکتا۔کشمیری قائدین کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ان الیکشنوں کا مسئلہ جموں کشمیر کی مستقبل سازی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔بھارت اور اسکے کشمیری حواری ان الیکشنوں کو ہمیشہ کشمیریوں کے مفادات اور خاص طور پر تحریک آزادی کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں اور بحیثیت ایک زندہ قوم کشمیریوں کو انہیں یہ موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے۔

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005