گند، ننگ اور لفنگ

Inflation

Inflation

آج ہم جس معاشرہ میں زندہ رہ رہے ہیں اس کی مکمل تصویر کھینچنا نہ ہی ممکن ہے اور نہ ہی میرے بس میں ہے کہ جہاں ہر دن یوم ذلالت اور ہر رات شب جہالت ہے، غربت اور مفلسی کا چھتر ہے تو ساتھ دہشت گردی کی ان لیمیٹیڈ ٹونٹی فو آر (Unlimited 24 hours) سروس، بے بسی اور بے روزگاری ہے تو مہنگائی اور رسوائی کا پیکچ ساتھ مفت میں۔ عوام غربت سے لڑتے لڑتے خود بھی پس رہی ہے اور ایک دوسرے کو بھی پیس رہی ہے۔ اگر آپ اعتراض نہ کریں تو میں کھل کر بیان کرتا ہوں۔ تو سنو یہ پورا معاشرہ مین میڈ جہنم کی ایک تصویر ہے۔ اور اس کو بنانے والے اس ملک کی اشرافیہ بھی ہے اور سیاستدان بھی ہیں اور یہ جاگیردار اور سرمایہ دار بھی مگراس میں (اکثریت) اول درجہ کی جاہل عوام بھی شامل ہے جو ایک دوسرے کو ہی چھری پھیرنے، ایک دوسرے کی ہی بوٹیاں کرنے اور ایک دوسرے کا ہی قورمہ بنا کے کھانے کے چکروں میں ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہاں سب جائز ہے مگر میں کہتا ہوں کہ یہاں جائز و ناجائز کا تصور ہی نہیں۔

ڈرامے بازی اور رنگ بازی میں بھی ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ دو نمبری کے استاد ہیں اور پرلے درجے کے دھوکے باز، فریبی اور ٹھگ اور جعل سازی میں جعلی نوٹوں سے لیکر جعلی ووٹوں تک، جعلی مینڈیٹوں سے لیکر جعلی جمہوریتوں تک، جعلی ڈگریوں اور جعلی پہچانوں سے لیکر جعلی لیڈروں تک، جعلی دوائوں سے لیکر جعلی دعائوں تک کہ ہم جعل سازی میں استاد کا مل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور دنیا میں یہ سب بچے بھچو نگڑے جعل ساز ہمارے شاگرد ہیں۔ سود کو اپنے آئین میں غیر قانونی اور حرام قرار دے کر اپنے اوپر واجب کرنے والے، کرپشن کو اپنا حق سمجھنے والے اور بے ایمانی کو نصف ایمان سمجھنے والے اور پاک۔ ستان کو ناپاک۔ ستان میں بدلنے کی قسم کھائے ہوئے کئی پاکستانی اور فرسٹ رینک کے جھوٹے، مکار، چال باز اور حاسد ہم میں سے ہی ہیں۔ ایسے لوگ اس پاک سر زمین پر ہی بستے ہیں کہ جنہیں ساری زندگی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے سوا کچھ نہ سوجھا۔

ایسے کہ جنہوں نے ساری زندگی ملک کو لوٹنا، عوام کا خون چوسنا اور عوام کو پاگل بنانا اپنا اولین فرض جانا۔ ایسے معاشرے کی ڈیفینیشن کیا کروں کہ جہاں مکمل انسان اقل قلیل حد تک قلیل اقلیت میں ہوں، کہ جہاں اخلاقیات کا بحران کیا قحط ہو بلکہ کوئی اخلاقیات کے لفظ کا حقیقی مطلب ہی نہ جانتا ہو، کہ جہاں ہر کوئی اپنے مطلب کے لیے مذہب، قرآن اور حدیثوں کو استعمال کرے، جہاں فرقہ واریت، لسانیت، قومیت اور نسل پرستی کا زہر عوام میں پھیل چکا ہو اور جہاں جنگل سے بھی بدتر قانون نافذ ہو۔ آج جس معاشرہ میں ہم جی رہے ہیں کیا یہ معاشرہ مافیاز کا معاشرہ نہیں؟ ایک ایسا معاشرہ کہ جہاں ڈکٹیٹر کی گود سے سیاست کا آغاز کرنے والی سیاسی جماعت جمہوریت کی امام بن جائے، جہاں روز اربوں کے ڈاکے ڈالنے والے مہذہب کہلائیں، جہاں اکیسویں صدی میں بھی عوام غلاموں کی سی زندگی بسر کریں۔ جہاں چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو نہ سمجھا جائے، جہاں کے عوامی قائدین اس قدر بزدل ہوں کے اپنی حفاظت کے لیے بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلوں کے ساتھ نکلیں، جہاں عورت کو پائوں کی جوتی، جہاں بھائی بھائی کو اور بیٹا ماں کو قتل کر دے، جہاں گناہ کو گناہ نہ تصور کیا جائے اور انتہائی بے غیرت بھی غیرت کے نام پر قتل کر دے۔

Quaid-E-Azam

Quaid-E-Azam

جہاں کے علما فرقہ واریت اور فرقہ پرستی کو پروموٹ کریں، جہاں کی اکثریت بے حسی کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو، جہاں صفائی کرنے والے ہی گندے، احتساب کرنے والے ہی کرپٹ اور قانون بنانے والے ہی قانون شکن ہوں، جہاں کے استادہی ظالم اور جلادہوں اور جہاں کے شاگرد بے ادب، بے فیض اور بے غیرتی کی مثال ہوں، اور جہاں کی اکثریت قرآن کو پڑھتی ہی نہ ہو اور پڑھنے والے سمجھتے نہ ہوں ایسے معاشرے میں اقبال کی شاعری کیا کرے گی؟ امام غزالی کا فلسفہ کون سمجھے گا؟ وہاں رومی، سعدی کی حکایات اور بلھے، فرید کے اقوال کس کے بند دماغ میں گھسیں گے؟ وہاں سیرت نبوی سے کون استفادہ کرے گا؟ کیا یہی وہ معاشرہ ہے کہ جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا؟ کیا اقبال نے ایسی ریاست کا تصور پیش کیا تھا؟ کیا قائد اعظم نے ایسے ملک کے قیام کے لیے اپنی ساری زندگی صرف کر دی؟ اور منافقت کی حد یہ ہے کیا ہے اگر کوئی قائداعظم کو اپنا لیڈر مانتا ہے تو ان کی پیروی کرے، اور ان کے تمام احکام بجا لائے کہ یہی محبت کا تقاضہ ہے۔ مگر یہاں تو صورتحال ہی الٹ ہے۔

قائد نے کہا کہ ”آئو مل کر ہم اپنے جمہوری نظام کو اسلامی رنگ میں اسلامی اصولوں کے مطابق بنیاد فراہم کریں”مگر ہم نے جمہوری نظام کو اپنے کبھی نہ بھرنے والے پیٹ بھرنے، ڈاکے ڈالنے اور عوام پر کاٹھی ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ قائد نے کہا کہ”میں چاہتا ہوں کہ آپ سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان اور بنگالی بن کر بات نہ کریں ”مگر ہم نے نسلی تعصبات اور صوبائیت کی ایسی آگ لگائی کے 23دسمبر 1971ء دیکھنا پڑا اور ملک دو حصوں میں ٹوٹ گیا۔ قائد نے کہا کہ ”ہمارا رہنما اسلام ہے اور یہی ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے”لیکن ہم نے اسلام کو تقریبا زندگی سے ہی نکال دیا۔ قائد نے کہا کہ ”ہماری تاریخ بہادری اور عظمتوں کی داستانوں سے بھری ہے ہمیں اپنے اندر مجاہدوں کی سی روح پیدا کرنی چاہیے” ہم نے اپنے اندر منافقوں کی سی روح پیدا کر لی، قائد نے کہا کہ ”اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنا ہوگی” اور ہم نے فلاح و بہبود کیا غریب طبقہ کا خون چوسنا شروع کر دیا، قائد نے کہا کہ ہمارے نزدیک تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔

ہم نے پیسے کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا، قائد نے کہا کہ” اگر ہم فوری اور نتیجہ خیز ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیمی شعبے پر پوری توجہ مرکوز کرنا ہوگی”ہم نے تعلیم اور تعلیمی نظام کا ستیا ناس کر دیا۔ قائد نے طلباء کو سیاست سے دور رہنے کا حکم دیا اور ہم نے اپنے کالجز اور یونیورسٹیوں میں سیاست پھیلا دی، اور قائد اعظم نے ایمان، اتحاد، تنظیم کا درس دیا جبکہ ہم نے اس معاشرے میں گند، ننگ اور لفنگ کو جنم دیا۔ گند وہ کہ جس میں ہماری اشرافیہ، کیپٹلسٹ اور وڈیڑے ہیں، ننگ وہ کہ جس میں ہماری انتہائی غریب بھوکی، ننگی دھڑنگی عوام اور لفنگ ٹولہ وہ کہ جس میں ہمارے اکثرمعزز سیاستدان، نام نہاد عوامی لیڈاران اور عظیم حکمران شامل ہیں۔

Mohammad Wasim Tar

Mohammad Wasim Tar

تحریر : محمد وسیم تارڑ