آپریشن کا فیصلہ

Athar Abbas

Athar Abbas

پاک فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل(ر)اطہر عباس نے انکشاف کیا ہے کہ فوجی قیادت نے 2010 ءمیں اس آپریشن کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جس کے بعد ایک سال تک فوجی کارروائی کی تیاری کی گئی لیکن عین موقع پر جنرل کیانی کے تذبذب کے باعث یہ آپریشن نہیں ہو سکا۔

کیونکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ذاتی کمزوریوں کے باعث فیصلے سے گریز کیا ان کا خیال تھا کہ اس بارے میں فیصلہ کرنے سے ان کی ذات کے بارے میں باتیں کی جائیں گی کہا جائے گا کہ یہ جنرل کیانی کا ذاتی فیصلہ تھا اس لئے وہ اس فیصلے کوٹالتے رہے جس کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضائع کیا نقصان اٹھایا۔

عوام مملکت اور فوج کو اس کی بھاری قیمت اٹھانی پڑی تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہوگئے ان کی تعداد بڑھ گئی اور ان کے وسائل میں اضافہ ہوگیا جبکہ اس وقت آپریشن کے لئے امریکہ کا دباﺅ بھی موجود تھا اگر اس وقت فیصلہ کر لیتے تو یہی تاثر ملتا کہ امریکی خواہش پر کارروائی کی جارہی ہے۔

میجر جنرل (ر) اطہر عباس کا آپریشن کے حوالے سے انکشاف یقینا درست ہے مگر اس میں تاخیر کی وجہ آرمی چیف کی ذات نہیں ہوسکتی کیونکہ کوئی بھی آرمی چیف اپنی ذات کی تقدیس کی خاطر قومی مفادات اور ترجیحات سے منہ ہرگز نہیں موڑ سکتا جبکہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ فوجی کمانڈروں کی خواہش کے بعد جب کوئی آرمی چیف اس خواہش کی تائید کرتاہے تو وہ پوری فوج کی خواہش اور فیصلہ قرار پاتا ہے۔

Pak Army

Pak Army

اس لئے یہ جواز ناقابل فہم ہے کہ جنرل کیانی آپریشن کے فیصلے کی ذمے داری قبول کرنے سے گریزاں تھے اگر اس وقت آپریشن ہوتا تو یقیناً اسے پاک فوج اور حکومت کی تائید پر مبنی فیصلہ قرار دیا جا سکتا تھا ہماری دانست میں اس وقت پاک فوج کی طرف سے آپریشن سے گریز کی وجہ امریکی ڈکٹیشن تھی۔

امریکہ مسلسل مطالبہ کر رہاتھا کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے اس کے مطالبے کی وجہ محض یہ تھی کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں غیر ملکی فورسز کے خلاف برسر پیکار دیگر مزاحمتی گروپوں میں پیش پیش تھا جبکہ پاک فوج اس کے خلاف کارروائی کر کے اپنے لئے ایک نیا محاذ کھولنے اور نئی مخاصمت پیدا کرنے کے خلاف تھی۔

محتاط انداز سے آگے بڑھ رہی تھی اگر اس وقت آپریشن ہوتاتو اس پر امریکی ڈکٹیشن کی چھاپ لگتی اور تمام قبائلیوں میں اس کاشدید ردعمل ہوتا جبکہ ہمارے لئے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی بھی ناگزیر ہوتی اور ہمیں اس کے ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا اگر 2011 اور 2014 کا تقابل کیا جائے تو دفاعی ماہرین کی رائے یہی ہے کہ آج آپریشن کے لئے ماضی کے مقابلے میں حالات زیادہ سازگار ہیں۔

یہ آپریشن ہم خوداپنی ترجیحات اور حکمت عملی کے تابع کر رہے ہیں کسی دوسرے کے مقاصد اور مفادات کے تابع نہیں اس وقت ماضی کے حوالے سے بحثوں کو چھیڑنا پاک فوج اور مملکت کے مفاد میں نہیں ہے ان سے گریز ہی کیا جانا چاہیے کیونکہ موجودہ حالات میں قومی یکجہتی کی انتہائی ضرورت ہے۔

Army Operation

Army Operation

مہربانی قسمت سے آج پوری قوم فوجی آپریشن کے حوالے سے یکجا و متحدہ دکھائی دے رہی ہے اسلئے ان حالات میں اس قسم کی اسرار کشائی سے اجتناب ہی بہتر ہے جس سے اس قومی یکجہتی کو خطرہ لاحق ہو اور افواج پاکستان کا آپریشن ضرب عضب پر کسی کو بھی کسی قسم کے تحفظات کے اظہار کا موقع میسر آ سکے۔