درد کے رشتے

Pain

Pain

تحریر : ایم سرور صدیقی
بعض باتیں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں کرنے، سننے اور بتانے کو جی چاہتا ہے یہ باتیں دل پر اثر کرتی ہیں اور جب بھی یاد آتی ہیں ان کا اپنا حسن، اپنا مزہ اور عجب نیا پن ہوتا ہے سدا بہار باتیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں انسان زندگی بھر ان سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے جو سچائی ہو اس میں بہت طاقت ہوتی ہے سچائی کو دنیا کی کوئی طاقت تسخیر کر سکی نہ کر سکتی ہے مسلمانوں کے چوتھے امیرالمومنین حضرت علی کا کہنا ہے کہ انسانی رشتے خون کی بنیاد پر نہیں ہوتے احساس کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں ہو سکتا ہے سگا بھائی اتنا دل کے قریب نہ ہو جتنا کوئی دوست احساس کرنے والا ہو۔۔

دکھ درد میں شرکت کرنے والا اور برے وقت میں کام آنے والا ہو۔یہی بے رحم سچائی ہے اور زندگی کی تلخ حقیقت بھی۔۔احساس سے عاری لوگوں اور پتھرمیں شاید کوئی اتنا فرق نہیں ہے دونوں سخت۔۔ دونوں کسی کو فائدہ نہ دینے والے۔۔ جاندار اور بے جان چیزوں میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ اپنے پیاروں کو نظرانداز کرنا بہت بڑی اذیت کا سبب بنتا ہے ایسے لوگ روز جیتے ہیں روز مرتے پھر بھی سکون نہیں ملتا مضطرب، بے چینی اور بے سکونی کی موت مقدر بن جاتی ہے حالانکہ انسان کی تخلیق ہی احساس کیلئے کی گئی ہے ایک دوسرے کے کام آنا عین عبادت ہے چلو غور کریں اسلام سارے کا سارا دین ہی حقوق العباد پر زور دیتا ہے یہ ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسان کی پیدائش سے بیشتر اور مرنے کے بعد بھی احکامات موجودہیں کمال ہے پھر بھی ہمیں غور کرنے کی عادت نہیں فکر کرنے کی خو نہیں۔۔یہ بھی احساس سے عاری ہونے کی ایک صورت ہے۔ کہتے ہیں ایک انتہائی مالدار لیکن کنجوس ترین شخص کے پاس ایک غریب آدمی مالی امدادکیلئے اس کی فیکٹری گیا۔اس نے اپنی مشکلات بیان کرنا شروع کردیںغریب کی ببتا سن کر فیکٹری مالک کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے غریب کو امید بر آئی کہ اب کچھ نہ کچھ مشکل کشائی ہو جائے گی اس نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید اپنی پریشانیاں بتانے لگا فیکٹری والے نے زور زور سے رونا شروع کر دیا غریب دل میں سوچنے لگا تیر نشانے پر لگاہے یہ شخص کافی مدد کرے گا اسی اثناء میں مالدارنے بیل دی غریب کی امید یقین میں بدل گئی۔۔ایک باوردی ملازم دفترمیں داخل ہوا۔۔۔فیکٹری والے نے رومال سے اپنے آنسو پو نجھتے ہوئے اسے اشارہ کیا اور کہا اس کم بخت کو دھکے دے کر فیکٹری سے باہر نکال دو اس نے رلا رلا کر میرا برا حال کردیا ہے۔۔۔ دنیامیں یقینا ایسے لوگوںکی کمی نہیں ایک ڈھونڈھو ہزار ملتے ہیں والی بات ہے اور احساس کرنے والے بھی بے شمار دنیا ایسے لوگوں تے بھی بڑی پڑی ہے۔۔۔شاید ہم میں سے بیشترنے کبھی تنہائی میں بھی نہیں سو چا ہو گا کہ احساس کیا ہے؟۔۔۔

Allah

Allah

احساس انسانیت کا سب سے بڑا رشتہ ہے ایک دوسرے سے کوئی خونی ناطہ نہ بھی ہونے کے باوجود یہ دلوں کو مضبوط بندھن میں باندھ دیتا ہے۔۔اسی کی بنیاد پر مخلوق ِ خدا فلاح پارہی ہے اسلام کے پانچ میں سے دو بنیادی ارکان زکوٰة۔ روزہ کا براہ ِ راست قلبی تعلق بھی احساس سے جڑا ہوا ہے زکوٰة تومسلم معاشرے کے مستحقین کا حق ہے صدقات، خیرات اور عطیات بھی احساس کی علامت ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ روزہ جیسی فرض عبادت کا مقصد بھی یہی ہے کہ امیر کبیر لوگ جن کو کبھی کسی عام آدمی سے کام نہیں پڑتا۔فرعون صفت افسران جو عام آدمی کو سیدھے منہ بلانا بھی پسند نہیں کرتے۔وڈیرے، جاگیردار اور اسی نوعیت کے انسان جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے غریب جن کی نظر میں حقیر کیڑے مکوڑو ں جیسے ہیں وہ بھی بھوک اور پیاس کا ذائقہ چکھ لیں۔دل سے اس کا مفہوم جان لیں۔۔اس سے زیادہ اللہ اپنے بندوں کا کیا خیال کرے جس نے روزے کی صورت میں بادشاہ، وزیر، امیر، غریب، ادنی ، اعلیٰ سب پر بھوک اور پیاس فرض کر دی۔یہ ہے احساس کے رشتے کی افادیت و اہمیت یعنی جس رشتہ کی بنیاد احساس پر نہیں وہ پائیدار نہیں ہوتا لیکن کتنی بڑی سچائی ہے رشتے کبھی بھی قدرتی موت نہیں مرتے اس کو انسان قتل کرتا ہے نفرت سے۔۔۔غلط فہمی سے۔۔۔ دوسروں کو نظر انداز کرنے سے۔۔۔شاید اسی لئے سیف نے کہا تھا۔

میرے پاس سے گذر کر میرا حا ل تک نہ پوچھا
میں یہ کیسے مان جائوں وہ دور جا کر روئے

کس قدر حکمت ہے،دانش سے بھرپور فلسفہ اورکتنی عمدہ بات۔۔۔ انسانی رشتے خون کی بنیاد پرنہیں ہوتے احساس کی بنیادپرقائم ہوتے ہیں ہو سکتا ہے سگا بھائی اتنا دل کے قریب نہ ہو جتنا کوئی غیر احساس کرنے والا۔۔۔سوچتاہوں جس دل سے احساس ختم ہو جائے وہ تو ویران اور بیابان ہے ۔۔۔صحراسے بھی بدتر۔۔جس کے مقدرمیں تیز آندھیاں، بگولے اور جھکڑ ہیںسکون جس کے نصیب میں نہیں۔۔ماں باپ بہن، بھائی ، اولاد، دوست الغرض جس کو احساس کرنے والے مل جائیں دنیا اس کیلئے جنت نظیر ہے۔ بعض باتیںبڑی خوبصورت ہوتی ہیں کرنے، سننے اور بتانے کو جی چاہتاہے یہ باتیں دل پر اثرکرتی ہیں اور جب بھی یاد آتی ہیں ان کا اپنا حسن، اپنا مزہ اور عجب نیا پن ہوتاہے سدابہار باتیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں لوگوں کے ساتھ ایسی باتیں کرنا بھی صدقہ ہے اس کے کئی فائدے ہیں یہ دلوںمیں احساس اجاگر کرتی ہیں ، مایوس لوگوں میں جینے کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ انسان کیلئے رشتوں کا قتل انتہائی کرب کی علامت ہے۔۔ ایک لحظہ کیلئے ذراسو چئے !کسی کا بھائی ، بیٹا ، شوہریا باپ احساس سے عاری ہو جائے اپنے رشتوںکو اہمیت دینا چھوڑ دے اس خاندان کی کیا حالت ہوگی ؟ واقعی رشتے کبھی بھی قدرتی موت نہیں مرتے اس کو انسان قتل کرتاہے نفرت سے۔۔۔غلط فہمی سے۔۔۔ دوسروں کو نظر انداز کرنے سے۔۔۔ایک بار اخبار میں ایک خاتون کی تصویر دیکھی انتہائی کسمپرسی کے عالم میں فٹ پاتھ پر سوتی تھی تحقیق پر معلوم ہوا اس خاتون کے بیٹے بڑے بڑے افسرہیں لیکن کوئی بھی اسے رکھنے کیلئے تیار نہیں ۔۔۔انہوںنے اپنی ماںکو گھرسے نکال دیا۔

گلی محلوںاور سڑکوںپر آپ نے بھی کئی بوڑھوں کو بھیک مانگتے یا فٹ پاتھ پر پڑے دیکھا ہوگا ان کے پیاروں نے بھی ان سے منہ موڑ لیا اور وہ زندگی کے آخری دن بے بسی سے گذار رہے ہیں نظر انداز کئے جانے والے حالات کی بے ثباتی پرنوحہ کناں رہتے ہیں حالانکہ وہ اپنے پیاروںکی توجہ کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں کئی بوڑھے اپنی زندگی سے اس قدر عاجز آجاتے ہیں کہ خود اپنی موت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔۔میں ذاتی طورپربوڑھوںکو خیرات دینا زیادہ پسند کرتاہوں بڑھاپا بذات ِ خود ایک بہت بڑی ازمائش ہوتی ہے ا للہ تعالیٰ نے تو واضح کہا ہے بوڑھے والدین کی طرف محبت سے دیکھنا بھی عبادت ہے لیکن جب دل احساس کی دولت سے خالی ہو جائیں تو کئی المیے جنم لیتے ہیں اس سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے سناہے نفرت بھی محبت کا ری ایکشن ہوتاہے محبت کے بعد نفرت بڑی دہلا دینے والی بات ہے یہ تصورہی بڑا بھیانک ہے جس کی ایک ایک ادا پر انسان فداہوتاہو ا سے ہی نفرت کرنے لگے کئی لوگوںسے یہ صدمہ برداشت نہیں ہوتا اور وہ اپنی جاںسے گذر جاتے ہیں بہر حال رشتے کبھی بھی قدرتی موت نہیں مرتے اس کو انسان قتل کرتا ہے۔۔۔یہ قتل ”ذبح کرکے بھی ظالم نے بڑے کس کس کے پر باندھے” کے مصداق ہے رشتوں کا تقدس برقراررہے تو کسی کے لئے مسائل پیدا نہیں ہوتے ماں ،باپ، بہن بھائی، بیوی، ساس، دوست الغرض ہررشتے کے اپنے حقوق و فرانض ہیں ان کے درمیان توازن رہے تو رشتوں سے بھینی بھینی خوشبو آتی رہتی ہے اور رشتوں کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔سچ ہے انسانی رشتے خون کی بنیاد پر نہیں ہوتے احساس کی بنیادپرقائم ہوتے ہیں ہو سکتا ہے سگے اتنے دل کے قریب نہ ہوں جتنے احساس کرنے والے غیر۔۔۔تو پھر انسان رشتوں کی بنیاد احساس پر کیوں نہیں رکھتا اس سوال کا جواب آپ میں سے کون دے سکتا ہے؟ ایک بات میرے دل میں ترازو ہوگئی ہے کہ درد کے رشتے ہی پائیدار ہوتے ہیں جسے سمجھ آ جائے وہ دوسروں کو بھی بتا دے اس سے بہتوں کا بھلا ہو جائے گا۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی