سکول پر دہشتگردوں کا حملہ کیوں ؟ ؟؟

Peshawar Incident

Peshawar Incident

تحریر : میاں نصیر احمد
ارمی سکول پر بزدلانہ حملہ پشاور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے ریاست پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔آئین کے مطابق شہریوں کو امن و امان کی فراہمی کی ذمہ داری براہ راست ریاست پر عائد ہوتی ہے۔

پاکستان میں امن و امان کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے ملک میں جاری دہشت گردی عوام کا قتل عام کرر ہی ہے ہرطرف جنازوں کے جنازے ہر طرف سوئے وہ معصوم پھول و کلیاں اور ہر جانب سے آتی چیخ میرا بیٹا کہاں ہے میرا بیٹا کہاں ہے بس ماوں کی آہیں آنسو اور بس آنسو سسکیاں ہی سسکیاں ہر سو ننھے ننھے وہ فرشتے لنچ بکس میں اپنی مرضی کا لنچ لیکر گئے ہونگے یہ اجلی اجلی یونیفارم سرخ کیسے ہوگئی۔

Pak Army

Pak Army

ان کا قصور کیا تھا پشاور میں پاک فوج کے زیر انتظام سکول پر دہشتگردوں کے حملے میں جام شہادت نوش کرنے والوں طلباء کا کیا قصور تھاکیا ان کا قصور یہ تھا کہ وہ پاک فوج کے زیر انتظام سکول میں تھے یا وہ پشاورمیں تھے تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ملک سے سیاسی افراتفری ختم کرنے کیلئے کردار ادا کریں اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی سطح پر اتحاد و یکجہتی کی فضا پیدا کی جائے تاکہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاسکے پشاور دہشتگردوں کا ارمی سکول پر بزدلانہ حملہ دہشت گردی کا یہ واقعہ قابلِ مذمت ہے۔

ہم شدید الفاظ میں اس کی مذمت کرتے ہیںان معصوم پھول و کلیاں پرحملہ کیوں کیا ہم ناکام ہو گئے ہیں؟کیا ہماری سکیورٹی ایجنسیز بیکار ہو چکی ہیں؟کیا ہم واقعی اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنے بچوں کی حفاظت کر سکیں؟کیا ایسے واقعات سے پہلے ان کیلئے انتظامات نہیں کیئے جا سکتے۔

ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ ملک کو مقتل بننے سے روکے اور پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لئے’ اس قسم کے دیگر واقعات کے حقائق کو بے نقاب کرکے قاتلوں اور دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچائے سانحہ پشاور جس میں دہشت گردوں ارمی سکول پر بزدلانہ حملے کا نشانہ بنا۔

پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کی تھی اللہ عزوجل سے دعا ہے کے پاکستان کو دہشت گردی اور بدامنی سے پاک کر دے یا اللہ ہمارے ملک کو اور تمام مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھ ہم پر اپنا خاص رحم و کرم فرما اور تمام امت مسلمہ کی اور پاکستان کی حفاظت فرما اللہ ان ظالموں سے حساب لے۔ آمین

Mian Naseer Ahmad

Mian Naseer Ahmad

تحریر : میاں نصیر احمد