پاک فوج نہ ہو تو طالبان 7 روز میں ملک پر قبضہ کر لیں، گورنر پنجاب

Punjab Governor Meeting

Punjab Governor Meeting

لاہور (جیوڈیسک) گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ فوج واحد ادارہ ہے جو سیاست سے بچا ہوا ہے۔

گورنز پنجاب کا کہنا تھا کہ پاک فوج نہ ہو تو طالبان 7 روز میں ملک پر قبضہ کر لیں، سیاسی بحران میں عمران خان، طاہر القادری اور حکومت تین فریق ہیں، اگر تینوں کو اتنے لوگوں میں سے پانچ ایسے آدمی بھی نہ ملیں جن کا فیصلہ ان کیلئے قابل قبول ہو تو یہ بدقسمتی ہے، عوام کی خدمت کے شوق میں یہاں پرآیا ہوں ٹیکسی اور بسوں میں سفر کرنے والا بندہ ہوں لیکن میں پروٹوکول میں جکڑا ہوا ہوں، بغیر پروٹوکول کے بھی نہیں جا سکتا۔ میں اپنے عہدے پر مس فٹ ہوں۔ 13 سال برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہا اور 22 مرتبہ حکومت کیخلاف رائے دی لیکن یہاں پر میرا منہ بند ہے۔ حالیہ ملکی سیاسی بحران کے بارے میں سوال پر انھوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل صرف مذاکرات ہیں، حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور انشا اللہ جلد مذاکرات کامیاب بھی ہوں گے۔

عمران خان، طاہر القادری اور حکومت اس وقت فریق ہیں، اگر اتنے لوگوں میں سے ان کو پانچ آدمی بھی ایسے نہ ملیں جن کا فیصلہ ان کے لیے قابل قبول ہو تو پھر اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ تینوں اپنی اپنی بات منوانا چاہتے ہیں، اگر ہم نے سسٹم کو بچانا ہے تو واحد راستہ مذاکرات لچک اوربرداشت کرنا ہے، اگر کسی نے ثالث بننا ہے تو اس پر تینوں فریقین کو اعتماد کرنا ہو گا، ویسے اب ثالثی والی بات نہیں رہی اب تو ’’کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا‘‘ والی بات ہے، جب انصاف کی بات آئیگی تو چاہے میرا بیٹا ہی کیوں نہ ہو اس کومیری ماننا پڑیگی۔ انھوں نے کہا کہ جو میں کررہا ہوں، وہ میری طبعیت کے مطابق نہیں، میں ساری زندگی مشکلات میں رہا ہوں، سچ بول بول کر بڑی مارپڑی ہے، ہمارے ملک میں عدلیہ آزاد ہے اور اس عدلیہ نے وزیراعلیٰ اور وزیروں پر مقدمہ درج کرادیا ہے اور پھر عدالت میں کوئی رعایت بھی نہیں دے رہی، میں شروع سے ہی حکومت پی آئی ٹی اور عوامی تحریک کے ساتھ مذاکرات میںشامل تھا، میں حکومت کا حصہ ہوں اور سبھی مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔

انھوں نے کہا کہ دھاندلی کے الزامات پر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، جب مجھے یہ عہدہ دیا جارہا تھا تو کئی دوست کہتے تھے کہ گورنر کا عہدہ ایک اعزازی عہدہ ہے جس سے آپ تنگ آجائیںگے لیکن بہرحال اس عہدے کا ایک آئینی کردار ہے۔ اب سی ایم نے اپنا کردار مجھے تو نہیں دینا، میں نے ساری زندگی اپنی مرضی کی ہے، میں نے کبھی وی آئی پی موومنٹ نہیںکی۔ میں تیرہ سال برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہا ہوں اور بائیس مرتبہ حکومت کے خلاف رائے دے چکا ہوں جب ٹونی بلیئر وزیراعظم تھا تو اس پر اتنی تنقید اپوزیشن نہیں کرتی تھی جتنی میں کرتا تھا، ٹونی بلیئر نے مجھے تین مرتبہ فون کرکے اپنی حمایت کرنے کا کہا لیکن میں نے انکار کیا، گورڈن براؤن سے میرا 30 سال پرانا تعلق ہے اس نے مجھے فون کرکے اپنی حمایت کرنے کی بات کی لیکن میں نے اس کو بھی انکارکردیا لیکن یہاں پر پندرہ مہینے سے میری زبان بندی ہے۔

اس جنگ میں کوئی بھی فاتح نہیں، سب مفتوح ہیں، میری خواہش ہے کہ ایسی انتخابی اصلاحات ہوجائیں جس سے کوئی بھی طاقتور بندہ یا بااثر فرد الیکشن میں دھاندلی نہ کرسکے، جہاں کہیں بھی جاگیردار یا وڈیرے بیٹھے ہیں، وہ اپنے خلاف ووٹ ڈالنے نہیں دیتے، اس لیے ہمیں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ ہم ماضی کو روتے ہیں حال اور مستقبل کو خراب کرلیتے ہیں، اگر ہمارے الیکشن میں ہارنے والے یا جیتنے والے کو 4,4 سال کا اسٹے مل جاتا ہے تو اس میں حکومت کی خرابی نہیں اداروں کی خرابی ہے۔ اگر ہمارے ادارے مضبوط ہوتے تو حالات یہ نہ ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ جب فوج کو حالیہ سیاسی بحران میں تعاون کیلیے کہا گیا تو میں نے بہت سنجیدہ تحفظات کا اظہار کیا تھا پاکستان کا واحد ادارہ فوج ہی ہے جو سیاست سے بچا ہوا ہے، اگر پاک فوج نہ ہوتو طالبان 7 دن میں پاکستان پر قبضہ کرلیں فوج کو سیاست میں ملوث نہیںکرنا چاہیے، اگر پارلیمنٹ اور جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو لوگوں کوانصاف، روزگار، صحت کی سہولتیں، بچوں کو تعلیم کی سہولت دینی ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ مڈٹرم الیکشن پر کوئی بات نہیں کروں گا، برطانیہ میں یہ سسٹم ہے کہ وزیراعظم کسی بھی وقت الیکشن کراسکتا ہے حالانکہ الیکشن کی مدت پانچ سال ہی ہوتی ہے لیکن وہاں یہ دیکھا گیا ہے کہ جو چار سال پورے کرتا ہے وہ الیکشن جیت جاتا ہے اور جو پانچ سال پورے کرتا ہے وہ ہار جاتا ہے، میں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ منسٹر لیول پر کرپشن میں کمی آئی ہے جبکہ نچلی سطح پر کرپشن موجود ہے، حالیہ سیاسی بحران کو حل کرنے میں الطاف حسین کا بہت مثبت کردار رہا، میری ان سے ٹیلی فون پر بات بھی ہوتی تھی اور اسی مثبت کردار کی وجہ سے میں نے ان کا شکریہ اداکرنے کیلیے لندن میں ان سے ملاقات بھی کی۔

پھر اس موقع پر مشترکہ کانفرنس کی، میں اپنے کہے ہوئے کا جوابدہ ہوں، میں نے کہا تھا کہ میرا یقین جمہوریت پر ہے اور جمہوریت ہی ملک کی ترقی کی ضامن ہے، جمہوریت گڈ گورننس اور ذمہ داری کا نام ہے، میں نے یورپ کے کئی ملکوں میں کوئی ایک ایسی جمہوریت تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جس میں لوکل باڈی انتخابات نہ ہوں، جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے اقتدار نچلے طبقے تک منتقل کیا جانا چاہئے جب تک یہ نہیں ہوگا جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، ہم ہر ایشو کو سیاسی ایشو بنادیتے ہیں ہم نے کالاباغ ڈیم کو سیاست کی نذر کردیا، اگر وہ ڈیم بن جاتا تو ملک میں سیلاب سے بحران پیدا نہ ہوتا۔