قیام پاکستان کا مقصد اور کپتان کا موقف

Pakistan

Pakistan

تحریر: لقمان اسد
ہزارہا قیمتی انسانی جانوں کے عوض حاصل کی گئی سرزمینِ مقدس یعنی پاکستان آج ستاسٹھ برس گزر جانے کے باوجود بھی ایسے تباہ کن مسائل کا شکار ہے کہ آج بھی اس دیس کے باسی شعوری طور پر اپنے آپ کو ایک غلام اور مقروض قوم تصور کرتے ہیں۔غلام اس لیے کہ عالمی سطح پر وطن عزیز کو وہ مقام،عزت اور مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ ببانگ دہل یا ڈنکے کی چوٹ پر اپنی کوئی بات تسلیم کرا سکے۔گزشتہ ایک دہائی سے امریکہ بہادر وطن عزیز کا سینہ ڈرون حملوں سے چھلنی کررہا ہے مگر ہماری فوجی اور سیاسی قیادتیں ملکی سطح پر تویہ آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں کہ ڈرون اٹیک ہماری قومی خود مختاری پر ضرب کاری کے مترادف ہیںجبکہ کسی عالمی فورم پر یہ آواز بلند کرنے سے وہ ہمیشہ ہجکچاہٹ کا شکار اور قاصر ہی نظر آتی ہیں۔

اسی طرح انڈیا کے ساتھ باہمی روابط کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو نمایا ںطور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انڈیا ایک بہت بڑی طاقت اور پاکستان ایک چھوٹے پیمانیکیعام سی کوئی ریاست ہے۔مثلاً دریائوں کے پانی کے معاملہ پر ہی آپ لمحہ بھر کیلئے غور فرمائیں تو آنکھں کھل جاتی ہیں۔معاہدوں کے باوجود انڈیا ہمارے حقوق کی پامالی کو گویا اپنے اوپر فرض اور قرض تصور کرتا ہے۔ اس قدر کھلے عام غیرقانونی طور پر انڈیا کی طرف سے دریائوں پر ڈیمز کی تعمیرات کا سلسلہ جاری و ساری ہے کہ جیسے اسے کسی طرف سے قانونی کاروائی کا کوئی خوف ہے نہ کسی بھی طرح کی مزاحمت یا مذمت کا سامنا اور ناہی معاہدوں کی پاسداری کا اسے کوئی لحاظ ہے۔اس لیے کہ ہماری ذمہ دار قیادتوں کی طرف اسے کسی تردد کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا۔تقریباً ہر سال وہ ایک نئے غیرقانونی ڈیم کی تعمیر مکمل کرلیتا ہے اور ہماری حکومت اپنا ایک وفد انڈیا روانہ کرتی ہے ادھر اخبارات میں اور ٹی وی چینلز پر چرچا ہوتا ہے کہ پاکستانی وفد دریائوں پر انڈیا کی طرف سے تعمیر کیے گئے غیر قانونی ڈیمز کے حوالے سے مذاکرات کیلئے انڈیا پہنچ چکا ہے۔

جبکہ دوسرے دن یہ خبریں اور اطلاعات ملتی ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوگئے اور پاکستان عالمی عدالت سے رجوع کریگا۔بعد میں کبھی کوئی ایسی اطلاع ہی نہیں آتی کہکب کہاںعالمی عدالت میں پاکستان گیا، نہیں گیا، کوئی علم نہیں اور نہ ہی ایسے ایشوز پاکستانی قیادتوں کے ذہنوں میں کوئی جگہ بناپاتے ہیں کیونکہ ان کاموں میں پڑنے سے کئی عالمی طاقتیں خفا ہوتی ہیں۔خدانخواستہ امریکہ بہادر خفا ہوجائے تو بہت سارے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ بڑھنے لگتا ہے۔کس قدر افسوسناک صورتحال کا پاکستانی قوم کو سامنا ہے کہ ریاستوں کی قیادتیں اور سلطنتوں کے حکمران تو اپنے اپنے ممالک کیلئے دن رات بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔وہ اپنے ممالک کو درپیش مسائل کے خاتمہ کیلئے عالمی سطح پر آواز بلند کرتے ہیں مگر صد افسوس کہ ہماری قیادتیںمحض اپنے اقتدار کی فکر کو لیکر بیٹھی ہوئی ہیں،ان کی فکر اور ان کی سوچ کا محور محض مال بنائو، کاروبار بڑھائو اور فیکڑیاں لگائو کے دائرہ تکہی محدود ہے۔معاشی صورتحال کا بغور جائزہ لیاجائے تو آج ہم تباہی کے اس دہانے پر کھڑے ہیں کہ دنیا میں موجود آج کسی بھی ایٹمی طاقت کو اس قدر معاشی زبوں حالی کا سامنا نہیں جس قدر ایٹمی ٹیکنالوجی کی حامل ایٹمی ریاست پاکستان کو ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

اگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پاکستان کے قرضہ جات کا کھاتہ بند کرکے لال کتاب میں ڈال دیں تو گو یاہماری حکومت سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے سے بھی قاصر ٹھہرے۔جب کوئی بھی ذی شعور شخص ان معاملات پر نظر دوڑاتا ہے تو وہ انتہائی اذیت سے دوچار ہوتا ہے کہ ایسا ایٹمی ملک جسے قدرت نے لازوال نعمتوں سے نوازا ہو کہ جہاں کوئلے کی مقدار دنیا کے پانچویں یا چھٹے نمبر پائی جاتی ہو۔تانبے اور سونے کے پہاڑ ہوں جس دھرتی پر۔جس ملک میں گیس اور تیل کے نئے ذخائر مسلسل دریافت ہوتے ہوں آخر کیا وجہ ہے نہ عالمی سطح پر اسے کوئی پذیرائی حاصل ہے اور نہ ہی ملکی سطح پر اس کے باشندے اپنے آپ کو ایک آزاد ملک کا باسی تصور کرتے ہوں۔

قیام پاکستان کا مقصد ایک ایسی سلطنت کا قیام تھا کہ جو ایک مکمل خود مختار اسلامی جمہوری ریاست ہوگی اور اپنے عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔ قائد اعظم اور مصور پاکستان کا یہ ویژن تو نہ تھا کہ ستاسٹھ برس بعد پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا کہ جس کا ہر فرد ہزاروں روپے کا مقروض ہو اور جس کا ہرفرد ناانصافی کا شکار ہو، جس کا ہر فرد اپنے مستقبل سے مایوس ہو اور عالمی بینکوں سے قرضہ لیے بغیر جو ایک ماہ بھی نہ نکال پائے اور پوری دنیا اس کو غیر سنجیدہ نظر سے دیکھے اور جس پر ایک عالمی طاقت مسلسل دس سال سے ڈرون حملوں کی صورت میں حملہ آور ہو۔پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے انہی عوامل کے پیش نظر آواز اٹھائی ہے،ایک نعرہ بلند کیا ہے اور کپتان کا موقف یہی ہے کہ پاکستان کو آج جس مقام پر کھڑا ہونا چاہیے تھا پاکستان وہاں پر آج نہیں کھڑا۔کپتان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان پر باری لینے والی سیاسی قیادتوں نیمحض اپنے اقتدار کی خاطر باریاں لینے کے چکر میں پاکستان کے مسائل کو پس پشت ڈال رکھا ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان ستاسٹھ برس گزر جانے کے باوجود بجائے ترقی کی جانب گامزن ہونے کے تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔کپتان کا موقف یہ ہے کہ جب تک نیک نیت لیڈر شپ پاکستان کو میسر نہیں آتی تب تک وطن عزیز عالمی سطح پر تنہائی کا شکار رہے گااور ڈرون حملے اس دھرتی کا سینہ پاش پاش کرتے رہیں گے، تب تک اس کے دریائوں پر غیرقانونی ڈیمز کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہیگا،تب تک ہمیں انڈیا اور امریکہ کی چودھراہٹ کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک پاکستان پر باری کے فلسفہ پر سیاست کرنے والی کاروباری شخصیات عوام کو بے وقوف بنا کر ملک پر برسراقتدار آتی رہینگی۔اگر پاکستان کیعوام چاہتے ہیں کہ پاکستان جو ہمارا پیارا وطن ہے قرضوں کی دلدل سے نکل کر اپنے پائوں پر مکمل آزادی سے کھڑا ہوجائے اور ہمارے قومی سطح کے فیصلے انڈیا، امریکہ اور سعودی عرب میں ہونے کی بجائے اپنی آزاد دھرتی پر ہوں تو کپتان کے موقف کی تائید یقیناپوری پاکستانی قوم کوکرنی چاہیے۔

اس لیے کہ کپتان کی باتوں میں صداقت ہے وہ کہتا ہے چار کارخانوں کے مالک آج درجنوں کارخانوں کے مالک ہیں اور اقتدار کے بغیر ان کا گزارہ نہیں۔وہ کہتا ہے کہ یہ لوگ حکومت تو پاکستان میں کرتے ہیں مگر کاروبار پاکستان سے باہر،پیسہ تو پاکستان میں کرپشن کے ذریعے کماتے ہیں مگرمنی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر رکھتے ہیں۔کپتان کہتا ہے کہ اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ٹیکس چور ہیں اور اپنی اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ہربار وہ یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ اب کی بار وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے لیکن ان کی اپنی تقدیر تو اربوں کما کر بدل جاتی ہے مگر ملک اورقوم کی تقدیر آج تک نہیں بدلی۔مجھے تو کپتان کا موقف سچ لگتا ہے۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد
رابطہ نمبر +923047501121