پاکستان میں لاک ڈاؤن کیا جائے یا نہیں؟

Police

Police

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سوشل میڈیا پر پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن نہ کیے جانے کے فیصلے پر کڑی تقید کی جا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں لاک ڈاؤن نہ کیے جانے کی صورت میں کورونا وائرس لاکھوں افراد کو متاثر کر دے گا۔

گزشتہ روز پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر عوام سے اپیل کی کہ وہ خود احتیاط برتیں اور گھروں میں رہیں۔ ان کا موقف یہی رہا کہ پاکستان کی اقتصادی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ لاک ڈاؤن برداشت کر سکے۔ لیکن کورونا وائرس کے خطرے سے پریشان عوام اس فیصلے سے ناخوش نظر آ رہی ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کی ماہر نگہت داد کا کہنا ہے، ”جب اتنی چیزوں پہ اللہ توکل کیا ہے تو لاک ڈاؤن پر بھی کر لیں۔ اتنی ہچکچاہٹ کیوں؟ بہادری کے ساتھ مزدوروں اور دیہاڑی پر کام کرنے والوں کے لیے بنیادی انکم پیکج کا اعلان کریں۔ اب بس فیصلہ لیں اور دیکھیں یہ قوم کیسے کھڑی ہوتی ہے اپنے وزیر اعظم کے ساتھ۔‘‘

پاکستانی صحافی شہزاد اقبال کا کہنا تھا،” وزیر اعظم صاحب لاک ڈاؤن کا ہر گز مطلب کرفیو نہیں ہے۔ سندھ میں بھی لاک ڈاؤن کے دوران جنرل اسٹور اور فارمیسی اسٹورز کھلے رہتے ہیں، انڈسٹریاں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کام کرتی ہیں، بینک بھی کم سٹاف کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کا مقصد لوگوں کی آمد ورفت کو محدود کرنا ہے۔‘‘

اقتصادی امور کے ماہر عبدالقیوم سلہری نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، ”لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر سختی نہ کی گئی تو کورونا وائرس کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن نہ کرنے سے بہت سی زندگیوں کا نقصان ہو گا اور لاک ڈاؤن کیا تو وہ اقتصادی طور پر نقصان دہ ہے۔‘‘

ڈیجیٹل ماہر ڈاکڑ عمر سیف کا کہنا تھا،” لوگ خود گھر بیٹھ جائیں یا حکومت لاک ڈاؤن کر دے، کیا دونوں حالات میں معیشت پر ایک جیسا اثر نہیں پڑے گا؟ تو پھر کیا حکومت لاک ڈاؤن نہ کر کے صرف اس موقع پر ایک مشکل فیصلے سے بری ذمہ ہونا چاہتی ہے؟‘‘

صحافی حامد میر لاک ڈاؤن کے معاملے پر وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان مشاورت کی کمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،”وزیراعظم عمران خان نے سہ پہر ساڑھے تین بجے ٹی وی پر آ کر کہا کہ لاک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے وزیراعلیٰ سندھ نے چار بجے اعلان کر دیا کہ رات بارہ بجے سے لاک ڈاؤن ہو گا دونوں نے اپنی اپنی سنا دی، عوام کدھر جائیں؟ اللہ کے واسطے اس مشکل میں ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کر کے مشترکہ مؤقف اپنائیں۔‘‘

صحافی عبداالقیوم صدیقی کا کہنا تھا،”اپوزیشن میں صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ملک کو لاک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے تو اقتدار حاصل کرنے کے بعد انسانی جانوں کو بچانے کے لیے کیوں نہیں؟‘‘

پاکستانی خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا،”حکومت لاک ڈاؤن کی طرف نہیں جا رہی تو عوام خود لاک ڈاؤن کریں۔ اُمید ہے کہ یہ سول نافرمانی نہیں ہوگی۔ حیرت ہے کہ ماضی میں زبردستی لاک ڈاؤن کرنے والی حکومت حفاظت کے لیے بھی ملک بند نہیں کرنا چاہتی۔ پوری دنیا بند ہے معلوم نہیں ہمارے ملک میں ایسا نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں ؟‘‘

دوسری جانب حکومت لاک ڈاون نہ کیے جانے کے فیصلے کا دفاع کر رہی ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا ہے،”ہم میں سے زیادہ تر لوگ لاک ڈاؤن چاہتے ہیں کیوں کے ہم اپنی زندگی بچانا چاہتے ہیں اور مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے پاس چند ہفتے کیا چند مہینے تک کے کھانے کے پیسے ہیں اس لیے ہمیں یہ آپشن بہتر لگ رہا ہے۔ ایک منٹ کے لیے سوچیں ان کروڑوں دیہاڑی داروں کا جن کے پاس ایک ہی دن کا کھانا ہے۔‘‘

صحافی انصار عباسی نے بھی حکومتی فیصلے کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا،”نہیں معلوم پورے ملک میں لاک ڈاؤن کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں خطرہ زیادہ ہے وہاں لاک ڈاؤن ضرور کریں لیکن ایسا کرتے ہوئے ضرورت مندوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنا بھی تو حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘‘

پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک ملک میں آٹھ سو کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ 352 کیسز ہیں اور پنجاب میں 252 کیسز۔ صوبہ سندھ نے گزشتہ شب صوبے میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا تھا لیکن وفاقی حکومت اس فیصلے کے خلاف ہے۔