لال جو لعل تھا

Students March

Students March

تحریر : شاہ بانو میر

پاکستان
اتنے بحرانی مسائل سے دوچار ہے
کہ
ترتیب بھی یاد نہیں رہ سکتی
نیا فتنہ دیکھا
لال لال لہرائے گا
تب ہوش ٹھکانے آئے گا
یہ انقلاب بھی لائیں گے
دھرنے کے بعد یہ روح فرسا خبر پھر بیچین کر گئی
سوچا دیکھا تو جائے اب یہ انقلابی کیسے آ رہے ہیں؟
سبحان اللہ
لڑکے کو لال لگامیں ڈالے وہی نظرآئیں
جو من مرضی چاہتی ہیں
کتا یا گھوڑا ان میں سے ہی کچھ لڑکے کو بنایا ہوا تھا
مطالبہ کیا جا رہا تھا
اسٹوڈنٹ یونین کی بحالی کا
ہر شعبہ ہائۓ زندگی سڑکوں پر حق مانگنے نکل آیا
ایسے میں طلباء تنظیموں کو بھی خیال آیا
اور وہ کہ رہےہیں
کہ
زندہ ہے طلباء زندہ ہیں
ستر میں مارا زندہ ہیں
اسیّ میں مارا زندہ ہیں
نوّے میں مارا زندہ ہیں
اس ملک میں کوئی مرتا نہیں یہ ثابت ہوتا رہتا ہے
کالج یونین جیسے ماضی سامنے آ گیا
کالج پہنچے تو رنگا رنگ دوپٹوں کی بہار دیکھی
ہرکلاس کے دوپٹے کے الگ رنگ تھے
اورنج ریڈ یلو بلیو تھے
فرسٹ ائیر سیکنڈ ائیر تھرڈ ائیر فورتھ ائیر
ان میں ایک نایاب سا رنگ تھا
جو کم کم کے پاس تھا
وہ تھا
سبز
جو مجھے بہت اچھا لگتا تھا
پتہ چلا یہ صرف یونین ممبرز کو ملتا ہے
ان دنوں ضیاء الحق نے یونین پر پابندی لگا رکھی تھی
لیکن
کالج کا نظام چلانے کیلئے
فرسٹ ائیر سیکنڈ ائیر سے انگلش کی کلاس ریپ
تھرڈ ائیر سے اردو اور اسلامیات کی سیکریٹری
اور
فورتھ ائیر سے صدر چن لیا جاتا تھا
یوں یونین کی خانہ پری بھی ہو جاتی
اور
کالج کی غیر نصابی سرگرمیاں چلتی رہتیں
مجھے گرین دوپٹہ لینا تھا
پتہ چلا کہ فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر تک
آپ کو انگلش کی کلاس میں الیکشن لڑنا ہوگا
الحمدللہ
فرسٹ ائیر سیکنڈ ائیر دونوں میں ہی الیکٹ ہو کر
گرین دوپٹہ حاصل کیا
پھر
اوتھ سرمنی میں بیجز بھی پرنسپل صاحبہ سے لگے
تھرڈ ائیر میں میرے گروپ میں اردو نہیں تھی
اسلامیات تھی
یوں اسلامیات کی ذمہ داریاں مختلف تھیںٌ
تقاریری مقابلے ہوں
یا
صبح کی اسمبلی
یا
سردیوں میں ظہر کی نماز کیلئے اہتمام
سب کرنا ہوتا تھا
ڈرامے اور سپورٹس سب میں بھرپور کردار ادا کیا
ان سب چیزوں کے پیچھے میرے ڈیڈی جان کی دی ہوئی ہمت اور اعتماد تھا
بہر کیف
ایک بار پرنسپل صاحبہ نے میٹنگ میں بتایا
کہ
یونین پر پابندی اس لئے لگائی گئی
کہ
بڑے لیول پر جیسے یونیورسٹیز میں جو
نوجوان جوشیلے اور زبان کے استعمال کے ماہر ہوتے ہیں
ان پر سیاسی تنظیموں کے علاوہ بین القوامی تنظیمیں گہری نگاہ رکھتی ہیں
بظاہر اسٹوڈنٹ الیکشن لگتے ہیں
لیکن
جس انداز سے انہیں منظم کیا جاتا ہے
وہ کچھ اور رخ دکھاتے ہیں
طلباء تنظیمیں عدم اعتماد اور عدم برداشت سے
پرتشدد واقعات میں ملوث پائی گئیں
ان کے پیچھے صرف طالبعلم نہیں ہوتے تھے
بلکہ
بڑی سیاسی جماعتیں ان میں سے ہی
مستقبل کے سیاسی رہنما کو چننا چاہتی ہیں
لہٰذا کھل کر پیسے کا استعمال کیا جاتا تھا
سب کے سب دھڑے
اپنے نمائیندے کو جتوانے کیلئے
ایڑہی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں
پھر
طاقت کا کھیل کہیں کہیں دشمنی میں تبدیل ہوتا ہے
اور
وہ نمائیندے جو طلباء سرگرمیوں اور مسائل کیلئے چنے جاتے ہیں
یونیورسٹی اور اسکے مسائل سے ہٹ کر کچھ اور سرگرمیوں میں پائے گئے
یوں قومی یا بین القوامی مافیا کی گرفت میں پھنس جاتے ہیں
جس سے نصابی ماحول تباہ ہونے لگتا
ہاسٹلز اسلحے ڈپو بنائے جاتے ہیں
انکے پیچھے سیاسی عزائم اور طاقت کے بہیمانہ استعمال سے
ملک پر راج کرنے والی قوتیں کارفرما ہوتی تھیں
مزید پیچیدگیاں ایسی بھی دیکھی گئیں
کہ
ان میں سے کچھ جماعتوں کے کارکنان کا
پاکستان دشمن خفیہ تنظیموں سے روابط ہوتے ہیں
جو انہیں کثیر سرمایہ فراہم کر کے
تعلیمی اداروں کا ماحول خراب کر کے
پاکستان میں بد امنی کو پھیلانے کی کوشش کرتے تھے
ماضی میں بوری بند لاشیں سر بریدہ لاشیں لاشوں کے ٹکڑے
گھر گھر ماتم کون بھول سکتا ہے
مقتول کے تشدد زدہ جسم کو کبھی استری سے جلایا گیا تو
کبھی سگریٹ سے داغا گیا
ملک بھر میں جب تعلیمی مدارس پر مافیا نے قبضہ کر لیا تو
جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء میں یونین پر پابندی لگا دی
اس کے بعد تعلیمی اداروں کے ہا سٹلز اسلحہ سے پاک ہوئے
اور
پرسکون ماحول میں واپس تعلیمی سفر کا آغاز ہوا
لیکن
کیونکہ
تعلیمی اداروں میں دلچسپی کیلئے کوئی خاص سرگرمی نہیں رکھی جاتی
اسی لئے ہمہ وقت کچھ نہ کچھ تخریب کاری سامنے آتی رہتی ہے
کچھ
پاکستان مسلسل بین القوامی سازشوں کے گٹھ جوڑ کا شکار رہا ہے
بد نصیبی سے کچھ اپنے ملعون بھی
ان کی مدد کرتے ہیں
حال ہی میں نئی ذہنی بیماری
میری مرضی می ٹو
جیسے دماغ دھڑلے سے مارکیٹ میں لائے گئے
کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا
تو آج اگلی قسط لال لال لہرائے گا
سامنے آ گئی
پاکستان کو دیے گئے قرضوں میں
ایسی اختراع سنہری پنی میں لپیٹ کر تھما دی جاتی ہے
حکومت وقت کو خاموش رہنا ہی ہوتا ہے
پیسہ دینے والےجہاں چاہیں مقروض قوم کا رخ موڑ دیں
وہ لباس ہو ثقافت ہو یا زبان و بیاں ہو
طلباء تنظمیں ماضی میں
ہر واقعہ ہر کہانی لڑکوں سے منسوب تھی
اس بار اس حکومت کی ذہنی قابلیت سامنے رکھتے ہوئے
لگتا ہے
نیا فارمولہ دیا گیا ہے
انقلاب آئے گا
اور
یہ انقلاب 2019 میں
کتا یا گھوڑا بنا مرد
لگامیں تھامے دھان پان سی لڑکی
کے ساتھ لائے گا
اس ملک میں کیا ہو رہا ہے ؟
پاکستان کو شاہکار بناتے بناتے کہیں ہم خود شکار نہ ہو جائیں
کھلے دل سے غیر اسلامی قوموں کی ملک میں آمد
بھرمار جگہہ جگہہ چینی باشندے
اور
جتنی کثیر ان کی تعداد ہے
ہمارے پاس تو وہ وسائل ہی نہیں کہ
انہیں اپنے نظام کے حصار میں لا سکیں
دوسری جانب
بھارتی سرکار کے ساتھ کرتار پور بارڈر کی مہربانیاں
ہر قوم کیلیۓ آپ مہربان ہیں ٌ
ہر ایک کو ملک کے اندر سیاحتی انداز میں رسائی دے کر
اس ملک کی خوبصورتی فطرت کو کیش کرنا چاہتے ہیں
یہ سب کچھ ان ممالک میں اچھا لگتا ہے
جو ملک خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوں
انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا
خواہ کتنے ہی لوگ کتنے ہی ممالک سے آکر سیاحت کریں
لیکن
میرے ملک کو فرق پڑتا ہے
میرے ملک میں ابھی تک عورت اور مرد کے مقام کا
تعین ہی نہیں کیا جا سکا
وہ جو اسلام میں قوام ہے
وہ جو گھر کا سربراہ ہے
وہ جو عورت کے سر کا تاج ہے
وہ جو میدان جنگ میں جاتا ہے
کہ
دشمن کو ہلاک کرے
اور
دھرتی کی حرمت سلامت رکھے
اسے آج اس ملک کی یہ لڑکی لگامیں ڈالے سر عام کھینچ رہی ہے
مردوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہے
کیا کسی کو خیال آیا
کہ
کیا یہ میرے ملک میں طلباء تنظیم کی بحالی کا واویلا ہے
یا کوئی بیرونی غیر دینی ایجنڈا؟
یہ سب کس کی ایماء پر ہو رہا ہے
بے تکے لچر ڈراموں کا نیا کلچر کون پرموٹ کر رہا ہے
جہاں سیاستدانوں کی گفتگو پر تو سنسر لاگو ہے
لیکن
اس فحاشی کیلئے کسی پابندی کی کوئی ضرورت نہیں
جانتے ہیں کیوں؟
اس لئے کہ وہ ہمیں قرضہ کی صورت جو بھیک دے رہے ہیں
یہ سب عوامل
ان میں شرائط کی صورت موجود ہیں
اور
مقروض کو قرض سے غرض ہے
گروی کیا رکھا یا کیا ساتھ آیا
وہ کب فکر مند ہے
ملک کو ترقی ملنی چاہیے
خواہ
اس ترقی کے حصول میں
ہماری قوم
اپنا قومی دینی تشخص ہی بھول جائے
کیا یہی وہ لال لال ہے
جو ماں کا لعل تھا
آج لگامیں ڈالے کسی کے اشارے پر
جانور بنا کھڑا ہے؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر