پاکستان میں پولیو کی روک تھام کیسے ہوگی؟

Polio Pakistan

Polio Pakistan

پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو اس وقت بھی پولیو کا شکارہے۔ نہ صرف پولیو کا شکارہے بلکہ پاکستان کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں پولیو کے قطرے پلانے کے رحجان کی نفی کی جارہی ہے۔ گذشتہ سال سے پولیوٹیموں پر کراچی اور خیبرپختونخواہ کے بعض علاقے میں حملے بھی ہوئے ہیں جن میں ابتک 13اہلکار جانبحق ہوگئے ہیں۔ ایک حملہ اسی ہفتے مردان کے علاقے پارہوتی میں ہوا ۔حملے کے نتیجے میں ایک سیکورٹی اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔

پولیو ٹیم بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہی تھی اور ان کے سکیورٹی پر دو پولیس اہلکار مامور تھے۔پولیو پلانے والی ٹیم اس حملے میں محفوظ رہی۔اس سے قبل بھی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں پولیو ٹیموں پر حملے ہو چکے ہیں۔ان حملوں کے بعد خیبر پختونخوا کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ پولیو مہم کے آغاز کا اعلان نہیں کریں گے۔مردان میں اس سے قبل چھبیس فروری کو بھی پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہو گیا تھا۔

پاکستان میںگذشتہ سال اٹھاون بچوں میں پولیو کے وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جن میں سے ستائیس خیبر پختونخواہ جبکہ بیس کا تعلق فاٹا سے تھا۔پاکستان میں انسداد پولیو کی مہم ایک عرصے سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود اس وائرس کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا تاہم بھارت میں یہ وائرس تقریباً ختم ہو چکا ہے۔پولیو ٹیموں پر حملوں کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان گی مون نے ان حملوں کو ‘ظالمانہ، احساس سے عاری اور ناقابل معافی’ قرار دیا ہے۔

Terrorism

Terrorism

اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے والے کارکن پاکستان بھر میں ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔یہ بات ذہین نشین کرناہوگی کہ جس طرح دہشت گردی سے پاکستان بدنام ہورہاہے، اس طرح پولیو کے وائرس کی موجودگی بھی پاکستان کی باہرکی دنیامیں بدنامی کاباعث بن رہاہے۔ یہاں مصر کی حکومت کے ایک بیان کا حوالہ دیناضروری ہے جس میں کہاگیاتھا کہ دارالحکومت قاہرہ میں پولیو وائرس کی ایک ایسی قسم ملی ہے جو اس سے پہلے پاکستان کے شہر سکھر سے دریافت ہونے والے وائرس سے مماثلت رکھتی ہے۔مصرمیںپولیو وائرس کی نشاندہی کے بعد اقوام متحدہ کے اداروں نے حکومتِ پاکستان سے کہا تھا کہ وہ ہوائی اڈوں پر بیرون ملک جانے والے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے فوری انتظامات کرے۔

اس کے بعد حکومتِ پاکستان نے صوبائی حکومتوں اور وفاقی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر بیرون ملک جانے والوں بچوں کو پولیو وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلانے کے انتظامات کیے جائیں۔اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونیسف اور محکمہ صحت کے اہلکاروں کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میںبھی کہا گیا تھا کہ قاہرہ میں نکاسی آب کی نالیوں سے حاصل کردہ دو نمونوں میں وائرس کی وہ قسم پائی گئی ہے جو پاکستان کے شہر سکھر سے دریافت ہوئی تھی۔

مصر کو سال دو ہزار چار میں پولیو وائرس سے محفوظ ملک قرار دے دیا گیا تھا تاہم اب ہدایت کی گئی ہے کہ قاہرہ کے ان علاقوں میں فوری طور پر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں جہاں سے وائرس ملا ہے’۔ایک طرف پاکستان پر الزام ہے کہ دہشت گردی کے پھیلائو کے اڈے پاکستان میں قائم ہیں اور اب مصر میں پولیو کے وائرس کاسراغ بھی پاکستان سے ملاہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او اور یونیسف میں پولیو سیل کے قائم مقام سربراہ مائیکل کولمین نے کہناہے کہ مصرکے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی کتنی اہمیت ہے۔

عالمی اداروں کے بیانات میں زوردیاگیاہے کہ پاکستان بھر میں طبی دیکھ بھال کے عملے کو فوری طور پر ملک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو قریبی طبی مراکز میں اور گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں کے ذریعے قطرے پلائے جائیں لیکن کچھ علاقوں خاص طورپرخیبرپختونخوا اور فاٹا میں ایسا مشکل ہوگیاہے۔ دو ہزار گیارہ میں دنیا میں پولیو کے سب سے زیادہ ایک سو اٹھانوے کیسز پاکستان میں پائے گئے تھے جبکہ پچھلے سال پاکستان بھر میں پولیو کے 52 کیسز سامنے آئے۔پچھلے سال چار قومی اور چار علاقائی مہمات چلائی گئیں۔

Polio Teams

Polio Teams

جن کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر آگاہی کی سرگرمیاں بھی جاری رہیںلیکن پولیو ٹیموں پر حملوں سے صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔ ان حملوں کے بعد اس تاثرکو تقویت ملی ہے کہ پولیو ایک خطرناک دواہے جس سے بچوں میں گوناگون بیماریاں پیداہوجاتی ہیں۔پولیو مہم پاکستان میں سابق وزیراعظم بے نظیربھٹونے اپنے پہلی حکومت میں شروع کی تھی اور اس مہم کو جاری رکھنے میں محترمہ کی بیٹی آصفہ نے بھی اہم کرداراداکیاہے لیکن اس امر کی ضرورت ہے کہ پولیوٹیموں کی حفاظت کے لیے خاطرخواہ اقدامات کئے جائیں اور لوگوں میں قطرے پلانے کے رحجان کو فروغ دینے کے لیے مقامی بااثرافراد کی خدمات حاصل کی جائیں۔

علماء سے فتوے لئے جائیں تاکہ لوگوں کے اندرپولیو کے حوالے منفی تاثر ختم ہوسکے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں یہ تاثر پایاجاتاہے کہ پولیو کی ویکسین مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔یہ تاثراس وقت زیادہ مضبوط ہوا جب یہ پتہ چلاکہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے ایبٹ آبادمیں یرقان کے انسدادکی ویکسین کی جعلی مہم چلائی۔ اگرچہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی کاکارنامہ ایک ناپسندیدہ عمل تھا لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے ہی پلاناچھوڑدیں۔

پولیو کے انسدادکے لیے ایک جامعہ اور وسیع پیمانے پر مہم کی ضرورت ہے۔ حکومت جب تک اس مسئلے سنجیدگی سے نہیں لے گی۔ لوگوں پر کیچڑ اچھالنے اورطنز کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوگا۔ایک مضبوط اورمربوط کوشش کی اشد ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کو پولیو بچایاجائے۔
تحریر: سید سبطین شاہ