پاکستان ریلوے کی زوال پذیری

PIA

PIA

ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں چند ایک حکمرانوں کے علاوہ کوئی مخلص لیڈر نہیں ملا ۔21 صدی میں طویل آمریت کے بعد ہمیں جمہوریت ملی اس پانچ سالہ جمہوری دور میں روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کرنے والوں نے اپنا وعدہ سچ کر دیکھایا غریب کے پاس مکان تو دور کی بات روٹی کپڑا سمیت ضروریات زندگی چھین کر بے نظیر انکم سپورٹ کے دو دو ہزار روپے کے لیے قوم کو بکاری بنا دیا ہمارے ملک کے تمام اداروں کو تباہ برباد کر دیا گیا ہے ۔پی آئی اے سے لے کر ریلوے اسٹیل مل ،این ایل سی ،پی ایس او سمیت بہت سے ادارے اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیںصنعتیں تقریباًبند ہو چکی ہیں۔

گیس، بجلی، سی این جی کا حال سب کے سامنے ہے ۔پیپلز پارٹی اس پانچ سالہ دور میں تو کرپشن کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑدیے ۔ہم بات کریں گے پاکستان ریلوے کی جس ہندوستان سے ہم نے آزادی حاصل کی ریلوے کا ایک جیسا نظام دونوں ملکوں کو ملا ۔تاریخی جائزہ لیں تو ہندستان میں 1832کو ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع ہو ا 1836میں مدراس میں سب سے پہلی ریل گاڑی چلائی گئی ۔1844میںبر طانوی حکومت نے ریلوے کا جال پورے خطے میں پھیلانے کے منصوبے کا آغاز کیا ۔اور اس منصوبے کی تکمیل کے لئے مختلف کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔

1974میں برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہونے والے دونوں ملکوں کو آبادی کے لحاظ سے برابر ریل گاڑی کے ڈبے اورا نجن دیئے گئے انڈین ریلوے کو 17زون میں تقسیم کیا گیا ہے 1951میں ریلوے زون کی تعداد 6تھی 1952یعنی ایک سال میں ریلوے زون کی تعداد 9ہوگی 2003میں 16اور اب 17زون ہیں۔بھارت نے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کو ریلوے کے ذریعے جوڑ لیا ہے۔ریل گاڑی جموں سے شروع ہو کر 345کلومیٹر 214میل کا سفر کرتے ہوئے سری نگر سے ہوتی ہوئی بارہ مولہ تک جائے گی۔اس منصوبے کی لاگت 60ارب بھارتی روپے اور 1.3ارب امریکی ڈالر ہے۔

بھارتی ریل نیٹ ورک دنیا کا چوتھا بڑا ریلوے نیٹ ورک ہے بھارتی ریل نیٹ ورک کی لمبائی 64.015کلو میٹر ہے اس میں سالانہ 7ارب لوگ سفر کرتے ہیں انڈین ریلوے کی سپیڈ 250کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور وہ350کلومیٹر تک بڑھانا چاہتے ہیں پاکستان کے ریلوے نظام کی بات کریں تو پاکستان ریلوے کا نظام ریاست کے اندر ریاست کے مترادف ہے ۔پاکستان ریلوے ایک ڈیپارمنٹ ہے مگر اس محکمے کی پولیس اپنی ہے سکول اپنے ہیں ریلوے کالونیاں ہیںجہاں بجلی اور واٹر سپلائی کی فراہمی ریلوے کے ذمہ ہے ۔ریلوے کی اپنی عدالتیں ہیں ریلوے کے ہسپتال بھی ہیں۔

Engine Factory

Engine Factory

جبکہ مردان میں 250 ایکڑ ر قبے پر انجن بنانے کا اپنا کارخانہ ہے یہ کارخانہ چین اور جاپان کی مدد سے بھاری لاگت سے تعمیر کیا گیا اس میں دو ہزار ہارس پاور سے تین ہزار ہارس پاور تک کے انجن تیا ر کیے گئے۔اس فیکٹری میں پارٹس بنانے کی صلاحیت موجود ہے ۔مغل پورہ کی ورکشاپ میں بہترین بوگیاں بنانے کی صلاحیت موجود ہے ۔اور اس فیکٹری کی بنی ہوئی بوگیاں اپنی مثال آپ تھیں ریلوے نظام کی تباہی اور بربادی کی داستاں لمبی ہے جس دن مشرف حکومت اس ملک پر مسلط ہوئی دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ ریلوے کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔

مشرف نے اپنے ساتھیوں کو نواز کے لیے مختلف محکمے اپنے جرنیل ساتھیوں میں بانٹے تو ریلوے کا محکمہ جنرل (ر)جاوید اشرف کے سپرد کیا گیا ۔انہوں نے ایک ہی معاہدے میں پاکستان ریلوے کی16ارب روپے کی خطیر رقم کو پانی میںبہا دیا ۔اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے چین سے ناقص انجن منگواے گئے ۔ایک چینی ٹرین چلانے کے لئے پلیٹ فارم اکھاڑ دیئے گئے ریلوے کو متعدد قسم کے تجربات سے گزارا گیا ۔اور ار بوں روپے کی قومی دولت کا ضیاع کیا گیا ۔ایک اندازے کے مطابق ریلوے میںروزانہ 1,78,000/-لوگ سفر کرتے ہیں۔

جبکہ ضرورت سے کم ٹرینوں اور ٹکٹ کے اجراء کے مطابق بوگیوں کے نہ ہونے اور ناقص انجنوں کے بار بار فیل ہونے سے ٹرینوں کی تاخیر گھنٹوں نہیں دنوں تک جا پہنچی ہے اور اس کا فائدہ پرائیویٹ ٹرانسپوٹر اٹھا رہے ہیں ٹرانسپور ٹ کے ذریعے انٹر سٹی روٹ پر 25,00,0000/-افراد کے قریب سفر کرنے پر مجبور ہیں اسی طرح مال برداری کا سب سے بڑا ذریعہ ریل ہونی چاہیے مگر ایسا کبھی تھا ۔اب اس کی جگہ پرائیویٹ مال بردار ٹرانسپورٹ لے چکی ہے اس وقت پاکستان ریلوے کی حا لت زاریہ ہے بہت سی ٹرینیں بند کر دی گئیں ہیں انجن فیل ہونا معمول ہے کرائے بے پناہ حد تک بڑھائے گئے اور بکنگ چارجز الگ سے لیے جاتے ہیں ٹرینوں کے اندر صفائی کا انتظام نہیں ٹرینوں کے اندر کھانے پینے کی اشیاء اتنی ناقص ہوتی ہیں۔

جس سے خطر ناک مرض لاحق ہو جاتے ہیں ۔ریلوے کے اپنے ملازمین جعلی ٹکٹوں کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں چند ماہ قبل ساہیوال میں ایسے ہی گروہ کو پکڑا گیا جو کئی سالوں سے اس مکروہ دھندے میں مصروف تھا اس میں چونکہ اس میں افسران بھی ملوث تھے ان کو جلد ہی باعزت چھوڑدیا گیا ۔ٹرین کے اندر کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ملتی پھر بھی ریلوے خسارے میں رہتا ہے ۔ شیخ رشید صاحب ریلوے کے وزیر تھے تو بہت سی نئی ٹرینیں چلائی گئیں شیخ صاحب نے ریلوے کی بہتری کے لیے کافی اچھے اقدامات کئے ۔سابق وزیر ریلوے بلور نے تو قسم کھائی تھی کہ وہ ریلوے کا ایسا حشر کرے گا کہ دنیا دیکھے گی۔

جب تک آخری ٹرین بند نہیں ہوجاتی اس وقت تک ریلوے کی جان نہیں چھوڑیں گے جاتے جاتے 16 ارب روپے کا ٹھیکہ بلیک لسٹ کمپنی کو دے کر ملکی خزانے کو چونا لگا کر اپنے بریف کیس بھر کر لے گے سپریم کورٹ نے ایکشن لیا ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ شیخ رشید نے اب بھی حکومت کو کہا ہے کہ میں اپنی تمام صلاحیتوں سے ریلوے کو بہتری کی طرف لانا چاہتا ہوں اگر ریلوے کی بہتری کے لیے شیخ صاحب کی خدمات حاصل کر لی جائیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ پر حکمرانوں کو کیا ؟ ان کے اپنے جہاز ہیں
بلٹ پروف گاڑیاں ہیں عوام جائے۔

جہنم میں ان کو کوئی سروکار نہیں اگر پاکستان کے ریل کے نظام کو نہ بچایا گیا ۔تو پھر اس کے اثرات سارے ملک پر پڑیں گے ریلوے کی بربادی کا مطلب ہے جدید پاکستان کو افغانستان بنانا ۔دوسری طرف ریلوے کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے ریل کے نظام کوکاروبار اور منافع کی غرض سے نہ دیکھا جائے بلکہ اس کو سماجی خدمات کا منصوبہ قرار دے کر مسافروں کی سہولیات کی خاطر اس نظام کو درست کرنے کی عملی کوشش کی جائے تاکہ پاکستان ریلوے زوال پذیری سے نکل کر ترقی کی منزلیں طے کر سکے ۔

Hafiz Javed Rahman

Hafiz Javed Rahman

تحریر : حافظ جاوید الرحمن
hafizjaved41@gmail.com