کیسا انقلاب

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

کہا جاتا احتجاج جموری حق ہے مگر آج کے زمینی حقائق اس حق کی نفی کرتے میاں شہباز شریف کہتے ہیں پانچ سال منڈیٹدیا گیا تو پفر خوف زدہ کیوں ؟ان دنو جناب طاہرالقادری سوشل میڈیا پر ہی کیا چھپر ٹی سٹال پر بھی موجود، ان کی زات ،افکار و نظریات موضوع بحث ہیں ،مقتدر حلقے بوکھلائے ہیں کہ وہ دلیل سے بات کرتے ہیں،اس گلے سڑے جمہوری نظام خصوصاً پاکستان میں جہاں خاندانی جمہوریت یا بادشاہت چلی آرہی ہے، وہ جن دلائل سے اس جمہورت کی کمزوریو ںکو ننگا کرتے ہیں اسکا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں کہ اس نام نہاد جمہوریت نے عوام کو اب تک کیا دیا انکا انقلاب مارچ ….مارچ توماضی میں بھی ہوئے جنکا خمیازہ ملک وقوم آج تک بھگت رہی ہے۔

پتہ نہیں مستقبل میں کب تک…..اخباری خبر کی زندگی ایک دن کی دوسرے دن بھولی بسری داستان تاہم ریکارڈ رہتا ہے آکے مقتدر کل کی اپوزیش ایک وقت یہ لوگ بھی خونی انقلاب کی نوید دیتے ،مثلاً ، ٨جون ،١٠ئ، سینٹ میں بجٹ اجلاس میں بحث کرتے ہوئے سینٹراسحاق ڈار نے کہا کہ بے روزگاری ختم نہ کی گئی تو خونی انقلاب آئے(آج ان کی حکومت وہ وزیر خزانہ انہوں نے بے روزگاری ختم کر دی.. …) ،سینٹر رضا ربانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا غریبوں اور امیروں کے درمیان فرق بڑھ گیا ہے۔

پھر صدیق الفاروق نے ایک خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ غریبوں کو ریلیف نہ دی گئی تو پھر خونی انقلاب کو برپا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ،…اور آج کی اپوزیشن کی طرف سے خونی انقلاب کی نہیں بلکہ انقلاب کی بڑکیں سنائی دے رہی ہیں اخبارات میں تبصرے تجزئے لکھے جارہے ہیں کہ بس انقلاب دورازے پر پہنچ گیا کوئی، فرانس کے انقلاب جیسا، تو کوئی مصر میں، ہونے والے انقلاب یا کرغزستان میں برپا ہونے والے خونی انقلاب پھر ایک موقع پر وزیر اعلےٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی ایسا ہی کہا،خونی انقلاب ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے اگر حکمرانوں نے عوام کے لئے روٹی، تعلیم، معاشی اور معاشرتی انصاف کا انتظام نہ کیا تو عوام اس جعلی نظام کو زمین بوس کر دیں گے۔

ن لیگ اسی نظام کی پروردہ آج اس کے تحفظ کے لئے …..،کچھ بھی کرنے کے لئے تیارہے، اب آج کی اپوزیشن ان کے خلاف وہی کچھ کہہ رہی ہے اگر کہ یہ حکمران کل حکومت کے اور نظام کے خلاف تھے توآج اپوزیشن ان کے خلاف وہی کچھ کہہ رہے ہیس تو غلط کیا ہے اگر یہ لوگ تب درست تھے تو وہ لوگ درست کہہ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں رائج جمہوری نظام غلط وفرسودہ ہے اس کی اصلاح کی ضرورت،مگر میں یہ کہوںگاکہ کے سیاست دانوں کی نیتیں خراب ہیں نظام کوئی بھی اپنی جگہ خراب نہیں بلکہ اسے چلانے والوں کی اپنی نیتیں خراب ہیں خواہ کمیونزم ہی کیوں نہ ہو….یہی نظام ہے پورے یورپ میں کامیاب ہے۔

برطانیہ میں تو شاہی جمہوریت ہے وہاں تو اِس میں کوئی خرابی نہیں ،یورپ میں تو یہ بھی ہوتا کہ وزیر آعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے اور کوئی وزیر آعظم ٹیکسی چلا کر لوگو سے حالات معلوم کرتا ہے مگر یہاں تو وزیر آعظم کی شان ہی کچھ اور ہے …. اب آئیں انقلاب کی طرف جس کا آج بہت چرچا یاد رہے پاکستان میں کبھی ایسا انقلاب نہیں آسکتا ،یہاں ٧٠ء جیسا انقلاب …یا ٧٧ء جس کسک آج بھی قوم محسوس کر رہی ہے اب یہاں انقلاب جیسا لوگ چشم تصور میں دیکھ رہے ہیں کیوں نہیں ..کہ یہاں ایک قوم نہیں بلکہ ملی جلی بھیڑ ہے جو کبھی اپس میں متفق نہیں ہو سکتے اگر متفق ہوسکتے تو کالا باغ ڈیم کب کا بن چکا ہوہوتا،جس پر اُس وقت فزیبلٹی اور مشینری پر قوم کا ٢٥،ارب خرچ…..گو انقلاب کی باتیں بہت ہو رہی ہیں جبکہ ایسے انقلاب کے بیشتر مواقع آئے مگر انقلاب نہ آیا کیونکہ انقلاب کسی لیڈر کا محتاج نہیں بلکہ حالات انقلاب کی راہ بناتے ہیںتب انقلاب برپا ہونے کے بعد اس میں سے لیڈر پیدا ہوتا ہے۔

Revolution

Revolution

،تاریخ کا مشہور انقلاب فرانس کا کوئی لیڈر نہیں تھا ببلکہ سماجی طور پر پسے ہوئے بھوک کے مارے لوگوں نے برپا کر دیا ایسا ہی ایک موقع ٠٩ء میں آیا جب آٹے چینی کی قلت پیدا کر دی (یہاں کبھی کسی چیز کی قلت نہیں بلکہ منافع خور حکومت کے ساتھ مل کر مصنوعی قلت پید ا کر کے عوام کو لوٹتے ہیں جیسا کے آجکل بجلی کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی تاکہ کمپنیا ں حکومت کے ساتھ مل عوام کو لوٹیں…غور کریں ٢٨ جولائی شام ٥ بجے سے ٢،اگست صبح ١٠تک اِس دوران صرف جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ١٢ سے صبح ٢ بجے تک سوچ آف ہوأ،اور اس طرح کوئی ١٠٩ گھنٹے تک وزیر آعظم کے اک اشارے سے بجلی حاضر رہی اور پھردو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ یہ تو لاہور شہر کا حال دور دراز علاقوں کا حال کیا ہو گا۔

غریب عوام بیچارے آ ٹے کے لئے گھنٹوں قطاروں جن میںخواتین،بوڑھے اور جوان پریشاں یہی خونی انقلاب کے لئے حالات انتہائی سازگار مگر …. خاص طور پر جب ڈی سی اوبھکر سستے رمضان بازرکے دورے پر آئے جہاںسستا آٹا خریدنے والوں کی لمبی قطار ،حبس کی وجہ سے لوگ لائین میں ٹیڑے ہو جاتے ہیںاب ڈی سی او کو تو اس کا تجربہ نہیں ، اب ایک ایسے شخص کوایسے ہی لائین میں ٹیڑھا کھڑ ا تھا پتہ نہیں کب سے لائین میں لگا تھا ،ڈی سی او بھکر محمدآصف نے دیکھا کہ یہ شخص جس کانام محمد افضل تھا لائین سے باہر ہے تب انہوں نے اسکی طرف شاہی اشارہ کیا، ساتھ شاہی پیادوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور محمد افضل کو کھینچ کر لائین سے باہر نکال دیا ،یہی وہ وقت تھا جب خونی انقلاب برپا ہو جب سسکتی ہوئی۔

غربت جوش اور ہوش میں آئی افضل نے ڈی سی او بھکر کا گریبان پکڑا ،تاریخ میںایسا ہی وہ منظر تھا جب فرانس میں خونی انقلاب ایک بڑھیا نے برپا کیا جب تاج اچھالے گئے ….جب محمد افضل نے DCOبھکر کو گریبان سے پکڑااور قریب کھڑے سینکڑوں لوگ ششدر رہ گئے ….مگر کوئی ایک افضل کے ساتھ کھڑا نہ ہوأ اور اسے پولیس شاہی مہمان بنا کر لے گئی کہ یہی پولیس کا فرض وہاں سینکڑوں غریب قطاروں میں کھڑے اور بہت سے لوگ بھی یہ منظر دیکھ کر سہم گئے یہی وقت تھا کسی خونی انقلاب کاجو گزر گیا۔

مگر کیوں اسکی وجہ اوپر بیان کر دی ہے ،٧٩ء میںایران انقلاب آیا وہاں ایک زبان ایک خطہ ایک رنگ و نسل اپر سے مذہب و مسلک ایک جہاں بھی ایسا انقلاب آیا وہاں یہ اجزاء موجود تھے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں …. ….جناب طاہر القادری کا انقلاب مارچ،یا خصوصاً عمران خان کا آزادی مارچ نے بلا وجہ سیاستدانوں اور کرپٹ اشرافیہ پر خوف طاری کر رکھا ہے اور یہ خوف خود اُن کے اندر ہے کہ انہوں نے آج تک عوام کے لئے سوائے سبز باغ کچھ نہیں کیا امیر اور غریب کا فرق بہت بڑھ گیا ہے۔

حکومت خوف اور بوکھلاہٹ میں ایسے اقدامات کر رہی ہے طاہر القادری کی رہائش گاہ کو جانے والے تمام راست سیل کردئے ، اسی پر بس نہیں خبر ہے ١٠،سے ١٤ ،اگست تک سی ان جی اور پٹرول بھی بند ہوگا، آزادی مارچ کے خوف سے اسلام آباد فوج کے حوالے کر نے کے باوجود چار ہزار پولیس پنجاب سے اور ایک ہزار آزاد کشمیر سے منگوائی گئی، ان سے حکومت میں پایا جانے والا خوف واضح اور اسی بوکھلاہٹ میں ایسے اقدامات ٨ ،اگست کو ماڈل ٹاؤن میں جو کچھ حکومت کی طرف ہوأ خانہ جنگی یا٧٧ء جیسے انقلاب کی طرف لے جایا جارہا۔

فوج نہ چاہتے ہوئے بھی امن و امان کے لئے مداخلت پر مجبور ہو جائے گی ایسی کسی مداخلت کا ہر گز فوج پر کوئی الزام نہیں آئے گا … حکومت خود ان حالات کی زمہ دار ہوگی کہ اُس نے عوام سے اس کا احتجاج کا جمہوری حق چھین لیا ہے ، ٩٩ء کی فوجی مداخلت کا زمہ دار میاں نواز شریف خود تھے اور یہ سب کچھ ریکاررڈ پر موجود ہے، اور اس انقلاب سے کیا حاصل ہوگا یہ آنے ولا وقت ہی بتائے گا ….اس کے علاوہ کسی انقلاب کا دور وورتک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: بدر سرحدی