پینڈورا پیپرز، ٹیکس چوری کے خلاف یورپی یونین کی ناکامیاں

Pandora Papers

Pandora Papers

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) آف شور کمپنیوں اور خفیہ دولت سے متعلق عالمی تحقیقات نے یورپی یونین کے اندر کئی اعلیٰ شخصیات کے ناموں کا انکشاف کیا ہے۔ اس سے خود یورپی یونین کے مالیاتی نظام میں موجود نقائص پر سے پردہ اٹھا ہے۔

یورپی کمیشن کی ترجمان ڈانا اسپیننٹ برسلز میں محتاط نظر آئیں کیونکہ ان سے پينڈورا پیپرز کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ”ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کاغذات میں بیان کردہ انفرادی ناموں یا انفرادی اداروں پر کوئی تبصرہ کریں۔‘‘ لیکن امکان ہے کہ یورپی یونین کی ایگزیکيٹیو باڈی مالٹا کے سابق یورپین ہیلتھ اینڈ کنزیومر پالیسی کمشنر جان ڈیلی کے معاملے میں دلچسپی ظاہر کرے گی۔

پینڈورا پیپرز کی تحقیقات میں ترک سروس بھی شامل تھی۔ ان پیپرز کے مطابق ڈیلی نے 2006ء میں برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایک آف شور کمپنی قائم کی۔ انہوں نے آئی سی آئی جے کو بتایا کہ انہوں نے کبھی کمپنی کا استعمال نہیں کیا اور مالٹا کی پارلیمنٹ کو اس کی رپورٹ بھی نہیں دی کیوں کہ قانون کے مطابق ایسا کرنا ضروری نہیں تھا۔

پينڈورا پیپرز شائع ہونے کے اگلے دن ہی یورپی کمیشن نے اصرار کیا تھا کہ یورپی یونین میں پچھلے پانچ سالوں میں ٹیکس چوری کے خاتمے کے لیے بہت کچھ کیا گیا ہے۔ یورپی کمیشن کے ترجمان ڈینیل فیری کا کہنا تھا کہ بینکنگ کے رازداری قانون کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے، ٹیکس بچانے کی اسکیموں کے بارے میں معلومات کا اب سرحدوں کے پار تبادلہ کیا جاتا ہے اور منی لانڈرنگ سے بھی زیادہ سختی سے نمٹا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنیوں کو محدود کرنے کے لیے ایک اور قانون سن 2021 کے آخر تک متعارف کروایا جائے گا۔

ڈینیل فیری کا مزید کہنا تھا، ”ہم نے ٹیکس چوری اور ایسی منصوبہ بندی کے خلاف کافی محنت سے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے۔ ہمارے پاس ایک فریم ورک ہے، جو دنیا کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اترتا ہے۔‘‘

یورپی یونین نے 2017ء میں آف شور کمپنیوں سے متعلق ایک فہرست تیار کی تھی۔ لیکن اس فہرست میں صرف ایک ملک شامل ہے، جس کا نام پاناما ہے۔ یورپی پارلیمان کے متعدد ممبران نے مطالبہ کیا تھا کہ آف شور کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ایسے ممالک یا مقامات کی فہرست بھی تیار کی جائے جہاں آف شور کمپنیاں بنائی جا سکتی ہیں۔

جرمن گرین پارٹی اور ٹیکس پر یورپی پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی کے رکن سوین گیگولڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یورپی یونین کی ٹیکس ہیون سے متعلق فہرست ٹیکس چوری کے خلاف جنگ میں مشکل سے موثر ہے۔‘‘ سوین گیگولڈ کے مطابق ٹیکس چوری کے ٹھکانوں کی شناخت کے لیے سخت معیار کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، ” ٹیکس ہیون سے متعلق یورپی فہرست غیرمنظم ہے اور اہم ٹیکس ہیونز کی تفصیلات اس میں شامل ہی نہیں۔‘‘ ان کا تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ یورپی یونین کے وزرائے خزانہ نے اس فہرست میں شامل کئی ریاستوں کو اس میں سے نکال دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ‘ٹیکس چوری کے اس نظام‘ کو ختم کرنے کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔ جی ٹوئنٹی ممالک نے گزشتہ برس اکتوبر ميں کمپنیوں پر کم از کم عالمی ٹیکس نافذ کرنے کا پروگرام متعارف کروایا تھا۔ لیکن یہ ٹیکس بھی ایسی منظر عام پر آنے والی کمپنیوں پر سن دو ہزار تئیس سے نافذ کیا جائے گا۔

اس کے قوی امکانات ہیں کہ جان ڈیلی، سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور چیک وزیراعظم آندرج بابیس جیسے افراد، جن کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں ہے، ٹیکس کے دائرے میں نہیں آئیں گے۔ اطلاعات کے مطابق بلیئر اور ان کی اہلیہ چیری نے 2017ء میں ایک آف شور کمپنی کے ذریعے لندن میں ایک عمارت خریدتے وقت تین لاکھ پاؤنڈ سے زائد کے پراپرٹی ٹیکس کی بچت کی ہے۔