مونگ پھلی سونے کی ڈلی

Peanut

Peanut

تحریر : محمد فاروق خان

پاکستان میں مونگ پھلی بارانی علاقوں کی موسم ِخریف کی اہم ترین اور نقد آور فصل ہے جوکاشتکاروں کی مالی حالت سنوارنے، ان کا معیار زندگی بلند کرنے اور ان غیر صنعتی علاقوں میں ناچتی غربت کو کم کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔یہاں نہری نظام نہیں تو کیا ہوا لیکن یہاں حکومتی،سیاسی اور اختیاراتی دودھ اور شہد کی نہریں ضرور دیکھی جا سکتی ہیں؟

پاکستان میںمونگ پھلی کی کاشت کا رقبہ231ہزار ایکڑ اور مجموعی پیداوار112ہزار ٹن سے متجاوز کر چکی ہے۔جبکہ مونگ پھلی کی کاشت کے حوالے سے پنجاب کا رقبہ92 فیصد،خیبر پختونخواہ 7 فیصد اور سندھ کا1 فیصد زیر کاشت ہے۔87 فیصد مونگ پھلی چکوال،جہلم،اٹک اور راولپنڈی سے حاصل کی جا رہی ہے اور باقی پیداوار صوابی،کوہاٹ،پارہ چنار،مینگورہ،سانگھڑ اور لاڑکانہ سے ہو رہی ہے۔مونگ پھلی کے بیج میں44 سے56 فیصد اعلی معیار کا خوردنی تیل اور22 سے30 فیصد لحمیات پائے جاتے ہیں۔مونگ پھلی کی ترقی دادہ اقسام کی پیداواری صلاحیت40 من فی ایکڑ ہے جبکہ ہمارے عام کاشتکار کی اوسط پیداوار10سے12من فی ایکڑ ہے۔مونگ پھلی کی ترقی یافتہ اقسام ،تحقیقی ادارے اور پیداواری صلاحیت باری89۔باری چکوال:3800 کلوگرام فی ایکڑ،چکوری۔باری چکوال:3600کلوگرام فی ایکڑ،سوات پھلی۔اے۔آر ایس مینگورہ:4000کلوگرام فی ایکڑ،باری2000۔باری چکوال4000کلوگرام فی ایکڑہے۔

انڈیا کے امپورٹ ایکسپورٹ مارکیٹ کے کنسلٹنٹ اور فارن ٹریڈ کے تجزیہ نگار نرمال پالا کے مطابق انڈیا دنیا میں مونگ پھلی ایکسپورٹ کرنے والا بڑا ملک ہے جو دنیا کو24.7فیصدمونگ پھلی ایکسپورٹ کرتا ہے جس میں34.9 فیصد انڈونیشیا،18 فیصد ویتنام،7.6 فیصد (پریمیم کوالٹی اور برینڈ پیکنگ) امریکہ،7.3 فیصد فلپائن،4.5 فیصد پاکستان،3.9 فیصد روس2.2فیصد تھائی لینڈ،2.1 فیصد الجیریا ہے۔نرمال پالا کے مطابق مونگ پھلی کا بزنس کچھ ممالک میں آئے روز رسکی ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ مونگ پھلی کے خریدار،امپورٹر کوبڑی مالیت کا کریڈٹ دینے کا رجحان ہے۔ انڈیا میںمونگ پھلی کی ایکسپورٹ بڑھانے اور عزت افزائی کے لیئے حکومتی سطح پر ہر سال ایکسپورٹرز ایوارڈ اور مونگ پھلی کے اعلی کارکردگی کے کاروباری افراد کو گولڈن ٹرافیاں دی جاتی ہیں۔2015 میں پرائیویٹ سیکٹر میں مونگ پھلی روسٹنگ کا پروسسنگ یونٹ لگایا گیا جوکہ ایڈوانس ٹیکنالوجی اور27000 مربع گز پر محیط ہے،جس کی پیداواری صلاحیت 35000 ٹن سالانہ ہے۔

پاکستان میں جانوروں کے چارے کے لیئے گندم اور دیگر فصلوں کے بھوسے کے علاوہ مونگ پھلی کے بھوسے کی مانگ میں عالمی سطح پر اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔خطہ پوٹھوار میں مونگ پھلی کے پودوں کے بھوسے کی ایکسپورٹ کے لیئے پیکنگ پلانٹ علاقائی سطح پر لگائے جا رہے ہیںجس کے آن لائن سیل کرنے کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔ مونگ پھلی کے کاشتکار اب اپنی فصل سے دو طرح کا مالی فائدہ حاصل کر سکیںگے۔ ٹریڈ کیTrade Key پاکستان کی ویب سائیٹ پراسے آن لائن فروخت کیا جا سکتا ہے۔ پنڈی گھیب کے گاوں اخلاص میں مقامی طور پر مونگ پھلی چھیلنے کی مشین تیار ہو رہی ہے۔مختلف علاقوں میں مونگ پھلی چھیلنے کی مشینیں لگ رہی ہیں جو بیج کے لیئے مونگ پھلی چھیل کر دیتی ہیں۔مونگ پھلی بھوننے کی بھٹیاں بھی سردیوں میں سڑک کنارے نظر آتی ہیں ۔
مونگ پھلی کا استعمال بہت ساری صنعتوں میں ہوتا ہے جس میں کاسمیٹکس،پینٹ،وارنش،لبریکنٹ آئیل،بسکٹ انڈسٹری، آئس کریم انڈسٹری۔فوڈ انڈسٹری،فارما انڈسٹری کے علاوہ مونگ پھلی کے تیل اور مکھن کی مانگ بھی عالمی مارکیٹ میں بڑھ رہی ہے۔

نظامت زرعی اطلاعات پنجاب،میڈ یا لائزان یونٹ راولپنڈ ی اپنی رپورٹ میں مونگ پھلی کی پیداواری صلاحیت اور پیداوا میں فرق کو المیہ قرار دیتے ہوئئے لکھتے ہیں کہ اس فرق کی وجہ منظور شدہ اقسام کی کاشت اور جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے رہنما اصولوں سے کاشتکاروں کی

لا علمی اور عدم دلچسپی ہے۔ زرعی سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے مونگ پھلی کی کاشت کے لیئے جدید اقسام اور زرعی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔کاشتکار ان کے رہنما اصولوں پر عمل کرکے اپنی پیداوار میں دو سے تین گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔

صلاحیت اور پیداوار کے فرق کو ختم کرتے ہوئے مونگ پھلی کی پیکنگ اور برینڈنگ کو عالمی مارکیٹ میں متعاف کرانا ہوگا۔اس علاقے کی مونگ پھلی کے ذائقے کی انفرادیت کو اجاگر کرنا ہوگا۔غلہ منڈیوں میں مونگ پھلی کے آڑھتی جوکہ معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم ہوتے ہیں ان کی بات کو سنا جاتا ہے۔ انہیں مونگ پھلی کی پیداوار میں اضافے سے لیکرایکسپورٹ بڑھانے تک کردار ادا کرتے رہنا ہوگا صرف کاشتکار سے مونگ پھلی خرید کر اگلے آڑھتی کو ٹرک بھجوا دینے سے آگے بڑھنا ہوگا۔مونگ پھلی سے متعلقہ صنعتوں کے قیام کے لیے چکوال چیمبر اف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی فعالیت بڑی اہم ہے لیکن اس کا کردار صرف چکوال شہر تک محدود نظر آتا ہے اگر چیمبر فعال نہیں ہوتا تو تلہ گنگ کے تاجروں کو منسٹری اف کامرس اینڈ انڈسٹریز سے بات کر نی چاہیے۔تلہ گنگ میں چیمبر کا کیمپ آفس ضروری ہے۔مونگ پھلی کے تاجران کو ایکسپورٹ پروموشن بیورو سے بھی رابطہ بحال کرکے مستفید ہونا چاہیے۔ دنیا کے بڑے آن لائن پلٹ فارم علی باباwww.alibaba.com پر تلہ گنگ غلہ منڈی کے مونگ پھلی کے آڑھتی کی لسٹنگ گولڈن ممبر کے طور پر دیکھی۔تلہ گنگ میں مونگ پھلی کی پیداوار بڑھانے،گریڈنگ ،کوالٹی، صنعت کے قیام،نئی برینڈ پیکنگ اور ایکسپورٹ میں اضافے کے لیئے کوئی فورم ہونا چاہیے جو ملکی اور عالمی سطح پرمونگ پھلی کی پیداوار اور ایکسپورٹ بڑھانے کے لیئے کام کرے۔

صلاحیت اور پیداوار میں فرق کے المیے کا پہلا آفیشل گناہ گارکاشتکار کو قرار دیا گیا ہے جوکہ صیح ہے لیکن اس فہرست کو ترتیب سے پڑھا جائے تو اس میں اور بھی ذمہ دار تلاش کیئے جا سکتے ہیں یہ اجتماعی غفلت اور بے حسی کا فنانشل کرائم ہے ۔ اس علاقے کی مالی کمزوریوں کو کم کرنے کے لیئے مونگ پھلی کو سونے کی ڈلی بنا کر معاشی توانائیوں میں بدلا جا سکتاہے لیکن کیا کیا جائے جب خشک سالی اور بد حالی کے مارے اس علاقے کی اکلوتی فصل جس سے کاشتکار اور اس کے گھر کے سارے مسائل بندھے ہوتے ہیںاسے جب مقامی منڈیوں میں کاشتکار لے کر جاتا ہے تو اسے متوقع ریٹ نہیں ملتا کیونکہ حکومتی صاحب اختیار کسی فرد یا کسی کمپنی کو انڈیا سے امپورٹ کرنے کی اجازت دے چکے ہوتے ہیںگذشتہ سردیوں میںکراچی سے آیا ہوا دوست سڑک پر مونگ پھلی بھوننے والی بھٹی سے مونگ پھلی خرید چکا تو میں نے اس سے کراچی میں مونگ پھلی کا ریٹ جانناچاہا تو حیرانگی ہوئی کہ تلہ گنگ اور کراچی کا ریٹ ایک جیسا تھا۔میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے تو اس نے بتایا کہ جب انڈیا سے مونگ پھلی کا جہاز اتا ہے تو مقامی مونگ پھلی کا ریٹ گر جاتا ہے۔ایسی صورتحال نہ صرف کاشتکار کے لیئے پریشان کن ہوتی ہے بلکہ مونگ پھلی کے آڑھتیوں کو متاثر کرکے ملکی معیشت کو بھی کمزور کرتی ہے۔

نظامت زرعی اطلاعات پنجاب،میڈ یا لائزان یونٹ راولپنڈی اپنی رپورٹ میں مونگ پھلی کی پیداواری صلاحیت اور پیداوا رمیں فرق کو المیہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ حکومت کی نا عاقبت اندیش امپورٹ پالیسی کو بھی قومی المیہ قرار دینا چاہیے۔ایسی حکومتی امپورٹ پالیسیوں سے مونگ پھلی سونے کی ڈلی کیسے بن سکتی ہے؟

M.Farooq Khan

M.Farooq Khan

تحریر : محمد فاروق خان