مرے قلم کا سفر رائگاں نہ جائے گا

Writing

Writing

تحریر : کامران غنی
بہار کے ادبی و صحافتی افق پر ایک ایسا ستارہ نمودار ہوا ہے جس کی ضوفشاں کرنیں ہر چہار جانب جگما رہی ہیں۔ دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر و صحافی ڈاکٹر منصور خوشتر کے قومی، ملی اور ادبی جذبے کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔اپنی محنت اور لگن سے انھوں نے بہار کی محدود ادبی سرحد کو عالمی سطح پر پھیلانے کا جو بیڑا اٹھایا ہے وہ قابل تحسین اور صد مبارکباد ہے۔ ہفت روزہ دربھنگہ ٹائمس اورسہ ماہی دربھنگہ ٹائمس کے توسط سے انھوں نے ادبی دنیا کو ایک بار پھر سے بہار کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے پرمجبور کیا ہے۔ویب سائیٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعہ عالمی سطح پر ان کی کاشوں کی ستائش ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نہ صرف ایک اچھے شاعر، بہترین نثر نگار اور عمدہ صحافی ہیں بلکہ قوم و ملت کا درد رکھنے والے ایک فعال نوجوان بھی ہیں۔

”ماجرا ۔ دی اسٹوری” ان کی ترتیب کردہ کتاب ہے۔ یہ کوئی شعری یا افسانوی مجموعہ نہیں ہے۔ ”ماجرا ۔ دی اسٹوری ” در اصل روزنامہ ”قومی تنظیم”(پٹنہ) کے چیف ایڈیٹر سید اشرف فرید کے وہ مضامین ہیں جو وقتاً فوقتاً قومی تنظیم میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہ مضامین زیادہ تر سیاسی، قومی، مذہبی اور شخصی نوعیت کے ہیں۔ اسے کتابی صورت دینے کا مقصد ملت اسلامیہ کے مسائل کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ کتاب کا عنوان(ماجرا۔ دی اسٹوری) کچھ عجیب سا ضرور ہے لیکن اس کی وضاحت کرتے ہوئے مرتب لکھتے ہیں:

”اس کتاب کو ”ماجرا دی اسٹوری” کے نام سے پیش کرنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ ماجرا کو کس طرح نیشنل میڈیا اور نام نہاد اخبارات نے اپنے متعصب لفظوں میں اسٹوری بنا دیا ہے جبکہ ملت اسلامیہ کے مسائل آج ملک گیر سطح پر ”دی اسٹوری” کا درجہ رکھتے ہیں۔” ”ماجرا دی اسٹوری”میں کل 44مضامین شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر مضامین ملت اسلامیہ کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ سید اشرف فرید کا شمار بہار کے چنندہ صحافیوں میں ہوتا ہے۔ بہار میں اردو صحافت کی تاریخ ”روزنامہ قومی تنظیم” کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ ایک زمانے تک بہار میں قومی تنظیم ہی وہ واحد اخبار تھا جو پوری ریاست میں پڑھا جاتا تھا۔

Majra the Story

Majra the Story

رفتہ رفتہ دوسرے اردو اخبارات منظر عام پر آئے تاہم آج بھی روزنامہ قومی تنظیم کا شمار بہار کے کثیر الاشاعت اردو روزناموں میں ہوتا ہے۔ سید اشرف فرید اور برادران ہندوستان کی اقلیتی آبادی کے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کے خلاف اس اخبار کے توسط سے قلمی جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سید اشرف فرید اپنے مخصوص کالم کے توسط سے قومی و ملی مسائل کو ارباب اقتدار تک پہنچانے کی سعی پیہم کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے سید اشرف فرید کے قیمتی اور دستاویزی مضامین کو یکجا کر کے بڑا کام کیا ہے۔ بہت سارے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن پر وقت اور حالات کی گرد چڑھ جاتی ہے اور رفتہ رفتہ ماضی میں ہوئے واقعات و حادثات کی ٹیس ختم سی ہو جاتی ہے۔ ماضی کو یاد کر کے رونا کوئی اچھی بات نہیں لیکن ماضی میں ہوئے حادثات کو یکسر فراموش کردینا بھی دانشمندی نہیں ہے۔ گزرے زمانے میں ہوئے حادثات و واقعات ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ”ماجرا دی اسٹوری” کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

سید اشرف فرید کے لب و لہجے سے قومی تنظیم کے قارئین اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کی تحریریں صاف ستھری اور سلجھی ہوئی ہوتی ہیں۔وہ بے باکی سے اپنی بات رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے ان کے قومی و ملی جذبے کا اندازہ لگانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کے تعلق سے ان کے کئی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ اپنے ایک مضمون (سر سید اور مولانا آزاد کی صرف یاد کافی ہے؟) میں وہ لکھتے ہیں : ”اللہ کا شکر ہے کہ آج مسلمانوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس دولت کی فراوانی ہے۔ ایسے لوگوں کے اوپر مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنے کی بڑی ذمہ داری ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے درمیان تعلیم کے فروغ کے لیے کام کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اسکول کالج ہیں اس کے مالکان اور انتظامیہ کمیٹی پر بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ملت کے غریب طلباء کو بھی اچھی سے اچھی تعلیم مفت دلوائیں۔”

(ماجرا دی اسٹوری، صفحہ45) ”ماجرا دی اسٹوری”کے تمام مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر منصر خوشتر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ملت اسلامیہ کے تعلق سے سید اشرف فرید کے بیش قیمت مضامین کو یکجا کر کے اسے کتابی صورت دی۔ بلاشبہ یہ کتاب ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جس سے دانشوران قوم و ملت ، نوجوان اور خاص طور پر طلبا کو ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ یہ کتاب دفتر روزنامہ قومی تنظیم، سبزی باغ پٹنہ یا بک امپوریم سبزی باغ ،پٹنہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

Kamran Ghani

Kamran Ghani

تحریر : کامران غنی