خطاب مولانا

Maulana Fazlur Rehman

Maulana Fazlur Rehman

تحریر : انجینئر افتخار چودھری

عزر یہ ہے کہ سنت رسول ہے اس لئے تین دن دے رہا ہوں۔یہ ہجوم عوام بڑی چیز ہے جوش خطابت میں انسان بہت کچھ کہہ دیتا ہے پیارے نبی کی ساری زندگی میں اس قسم کا واقعہ مجھے تو نہیں ملا۔کہ ایک معاہدہ کیا ہے اسے نعوذباللہ پس پشت ڈالا ہو اور وعدہ کیا ہو کہ وہ کسی جگہ پہنچیں گے اور وہاں جا کر عوامی طاقت کو دیکھ کر سابق معاہدے یکسر ختم کر دیئے ہوں۔مولانا کی عادت یہ ہے کہ وہ اسلام کی آڑ میں اپنے مخفی ایجینڈے پر کام کر جاتے ہیںجی! جناب مولانا کے تھیلے سے بلی باہر آ گئی ہے انہوں نے اپنے خطاب میں مطالبہ کر دیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان استعفی دیں اور کمال مہربانی کرتے ہوئے فرما دیا کہ تین دن کے اندر اندر استعفی دیا جائے اور ملک میں آزاد اور شفاف انتحابات کرائے جائیں۔جو انہیں زیب نہیں دیتا۔آج ایک اور کمال کی چیز بھی دیکھی کہ جو بڑی پارٹیاں تھیں وہ مولانا کے جال میں آ گئیں بلاول عمر میں تو چھوٹے تھے ہی مولانا فضل نے انہیں نکو بنا دیا جناب شہباز شریف بھی بے گانی شادی میں عبداللہ بنے نظر آئے۔

قارئین ماہ اکتوبر چلا گیا اسی مہینے کی ستائیس تاریخ کو یوم سیاہ کشمیر بھی منایا گیا۔مولانا نے پہلے ٢٧ تاریخ کو اسلام آباد میں آنے کا اعلان کیا بعد میں انہیں پتہ چلا کہ اس دن تو بھارت نے کشمیر میں فوجیں داخل کی تھیں کسی کے سمجھانے پر انہیں اسے کشمیریوں سے یک جہتی کا نام دینا پڑا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام آباد پہنچنے والوں کی تعداد لاکھ سے اوپر ہے ان میں پچانوے فی صد جمعیت علمائے اسلام کے اپنے لوگ تھے جو مدارس میں صرف امام چھوڑ کر پہنچے ہیں ۔ان لوگوں کو ناموس رسالت پر ضرب لگنے کا بہانہ کیا گیا اور کہا گیا کہ یہودی اشاروں پر ناچنے والی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے جبک ریاستی اداروں سے کہا گیا کہ ہم پر امن جلسہ کر کے چلے جائیں گے ۔

جب کنٹینر پر مولانا فضل الرحمن خطاب کر رہے تھے تو مجھے مولانا اشرف جلالی کا خطاب یاد آ گیا جس میں انہوں نے کہا کہ جب ختم نبوت پر ڈاکہ مارا جا رہا تھا تو اس وقت حضرت مولانا نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے دھاندلی کا شور مچا اور اس پر بھی جمیعت علمائے اسلام کے امیر کا یہ کہنا کہ دھاندلی زدہ انتحابات منظور نہیں تو میں محمود خان اچکزئی کی طرف دیکھنے لگا جو مولانا سے دو فٹ دور کھڑے تھے این اے ٢٦٥ میں قاسم خان سوری نے انہیں چاروں شانے چت کیا الیکشن کے فورا بعد انہوں نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کی اور کہا کہ میں عوامی فیصلے کو مانتا ہوں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سیاست میں کی گئی باتوں کا لحاظ نہیں کیا جاتا اور دوسرے کسی موقع پر صاف انکار بھی کر دیا جاتا ہے۔اسی سیٹ پر محمود خان اچکزئی نے مولانا حمداللہ شکور سے مقابلہ بھی کیا جو چھٹے نمبر پر آئے اگر کوئی دھاندلی تھی بھی تو لشکری رئیسانی کے ساتھ ہوتی جو پانچ ہزار ووٹوں سے ہارے مولانا کی پارٹی کے امیدوار سے قاسم خان کے یپندرہ ہزار ووٹ زیادہ تھے۔

اسلام آباد کے جی ٩ سیکٹر می جس انداز سے استقبالی گرائونڈ تیار کیا اس کی ستائیش ہونا ضروری ہے پانی کا وافر مقدار میں انتظام بیت الخلاء اتنے کہ انڈیا بھی رشک کرے۔اس کے علاوہ جو سہولیات ممکن تھیں انہیں دی گئیں۔اگر ٢٠١٤ کے دھرنے کی بات کی جائے تو ڈی چوک کی ایک محدود جگہ پر دھرنہ تھا تمام سہولیات کا بند وبست پی ٹی آئی نے خود کیا تھا کے پی کے کی جانب سے آنے والے جلوس کے ساتھ جو سلوک پرویز خٹک کے کلاس فیلو نے کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے لوگوں کو ربڑ کی گولیاں ماری گئیں بڑے ہجوم کو منتشر کر دیا گیا یہاں دھرنے میں جو اکا دکا لوگ ہجوم سے الگ ہوتے ان پر وحشیانہ تشدد ہوتا ۔آپ یقین کیجئے اس بار پاکستان کے دور دراز سے آنے والے لوگوں نے اسلام آباد آمد کو انجوائے کیا سوشل میڈیا پر باریش کارکنان جھولے لیتے نظر آئے یہ عمران خان کی دلیری تھی اس حد تک دلیری کہ اب کچھ لوگ سیخ پاء بھی ہیں کہ اس قدر ہجوم کیوں ہونے دیا گیا لیکن استقامت اور صبر کا یہ عالم ہے کہ پوری قیادت دلیری اور بہادری سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔

مولانا کی تقریر کا انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ استعفی لئے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے انہوں نے حساس ادارے کو بھی ڈرایا ہے کہ یہ طاقت کچھ بھی کر سکتی ہے۔جی ہاں واقعی اتنے لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن شائد ان لوگوں نے تحریر چوک کو نہیں دیکھا ریاست سے ٹکرانا انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے جو عمران خان کھلے دل سے انہیں کراچی سے اسلام آباد تک سہولتیں مہیا کرتا رہا ہے وہ ان سے نپٹنا بھی جانتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر جو اہم بات ہے وہ مذاکرات کی بات ہے جو ایک کہنہ مشق سیاست دان پرویز خٹک کے ہاتھ ہے پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ ہم بات چیت کے آپشن کو آخری حد تک استعمال کریں گے۔لیکن کسی کو ریاست کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔

عمران خان چاہے تو لاکھوں لوگوں کو حکم دے کہ وہ پریڈ گرائونڈ پہنچ جائیں تو میں لکھے دیتا ہوں اتوار تک گرائونڈ میں لاکھوں جان نثاران عمران اکٹھے ہو سکتے ہیں کارکنان میں اس بات پر شدید غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے کہ ان کا مینڈیٹ للکارا جا رہا ہے خود شمالی پنجاب اور راولپنڈی ڈویزن جہاں سے صرف ایک سیٹ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف جیتے ہیں باقی تمام سیٹیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں صرف اسی علاقے سے لاکھوں لوگ قوت کے اظہار کے لئے پریڈ گرائونڈ پہنچ سکتے ہیں مگر دلیر کپتان نے ہمیشہ مخالف کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا ہے شری کانت کی مثال بار بار دی جاتی ہے جسے شک تھا کہ وہ آئوٹ نہیں ہے اسے پھر بیٹ دے کر دوبارہ چاروں شانے چت کیا۔

مولانا ہجوم کے شور میں پہلی بار جوش میں آئے انتہائی پھونک پھونک کر قدم رکھنے والے مولانا نے عمران خان کا تو کچھ نہیں بگاڑا البتہ ا اس نے ایک شارٹ میں بلاول کو نکو بنا دیا اور مسلم لیگ کے شہباز شریف کو بھی اوقات یاد دلا دی۔

قارئین مدارس کے نیٹ ورک نے آج اپنی قوت کا مظاہرہ تو کر دیا ہے لیکن بہت سے زاویوں سے اس ہجوم کو دیکھا اور پرکھا گیا۔آج ثابت ہوا ہے کہ یہ صرف قران اور حدیث پڑھانے کے منبع نہیں ہیں یہاں بند دماغوں والی وہ فوج بھی تیار کی جا رہی ہے جو کسی وقت ریاست سے ٹکرا بھی سکتی ہے۔ہم وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ ٢٢ لاکھ بچوں کے مستقبل کی بات کرتے ہیں لال مسجد کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں لیکن آج جو مظاہرہ یہاں ہوا اس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان اداروں میں علم سے زیادہ تعلیم دی جا رہی ہے پرویز رشید نے ایک بار کہا تھا مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں میں نے جواب میں کہا تھا کہ نہیں جنت کی کھیتیاں ہیں آج پرویز رشید بھی اپنے بیان سے مکر گیا اس لئے کہ آج احسن اقبال اور شہباز شریف نے جمعیت کا سٹیج استعمال کیا۔ہم تو ان جنگجوئوں کو جنہوں نے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو شہید کیا کسی دشمن ملک کے لوگ سمجھتے رہے اور ابھی بھی یہی خیال ہے کہ واقعی پاکستانی نہ تھے لیکن جب انہی حلیوں کے حامل اسفری وردیوں میں ملبوس ہزاروں کارکن تیار کئے گئے ان کی مشقیں کرائی گئیں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے ۔

کیا ایف اے ایف ٹی ایف میں پاکستان کے کیس کو کمزور نہیں کیا گیا؟اس بات کا تسلسل یہ ہے کہ ہم بنی گالہ پہنچ کر وزیر اعظم کو گرفتار کر سکتے ہیں۔یہاں میں حیران ہوں کہ اس شدید قسم کی دھمکی کے بعد ریاست خاموش کیوں ہے؟اسلامی تاریخ خوارج سے بھری پڑی ہے۔اس سے پہلے کے شر کا رخ ڈی چوک یا بنی گالہ کی طرف بڑھے میرا خیال ہے عمران خان کو ریاستی قوت کو بلکل تیار کرنا چاہئے اور اگر مناسب سمجھیں تو پورے پاکستان میں اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو کال دیں۔لڑائی نہ کرئیں لیکن زور بازو ضرور دکھائیں۔عمران خان آج گلگت میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے وہ انڈیا کو للکار رہے تھے اور ادھر اسلام آباد میں گھس پیٹھ ہو رہی تھی اس سارے شور شرابے میں کشمیر کی کوئی بات نہیں کر رہا انڈیا نے کشمیر کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا ہے اور وہاں لیفٹیننٹ گورنرز بھی تعینات کر دئے ہیں۔ہمی لڑیں مریں آپس میں اور دشمن اپنا کام کر گیا۔

قارئین کرام ہم چونسٹھ کے ہو گئے ہیں اور واقعی محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی اب تیزی سے ڈھلوان کی جانب رواں دواں ہیں ہمیں تو اب اپنے اوپر کیک کا خرچہ بھی اچھا نہیں لگتا ۔چلو گزر گئی خبریں ستائیس کا ہو گیا ہے پچیس میرے ساتھ گزرے ہیں مجھے جدہ کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب خبریں نیا نیا مارکیٹ میں آیا اس نے بھی پی ٹی آئی کی طرح دو بڑے اخبارات میں جگہ بنائی اور دیکھتے دیکھتے جہاں ظلم وہاں خبریںکا نعرہ مستانہ لگا یا۔کتنی یادیں ہیں کیا زمانہ تھا فیکس پر آٹھ ریال میں ایک صفحہ بھیجا جاتا تھا ۔نواز شریف کی جلا وطنی کے دور میں جدہ کی خبریں بڑی اہم ہوتی تھیں۔مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب خبریں فورم جدہ کے زیر اہتمام جوان خوبرو دراز قد ضیاء شاہد کے اعزاز میں فردوس ہوٹل میں ایک انتہائی شاندار استقبالئے کا اہتمام کیا ۔بہت سے لوگ اب اس دنیا میں نہیں بہت سے بڑھاپے کی دہلیز پے کھڑے عمر رفتہ کو آواز دے رہے ہیں۔شکریہ خبریں میری جوانی کی سرگرمیوں کے شاہد خبریں۔میں نے اس اخبار کے لئے ان گنت لوگوں کے انٹرویو کئے نام لکھنا مشکل ہو جائے گا۔کیا زمانہ تھا کسی کا نام اخبار میں چھپتا تو لوگ دس دس اخبار خرید لیتے اب تو کالم لکھتے ہیں تو بتاتے ہیں اور جواب ملتا ہے لنک بھیج دیں۔سلامت رہیں ضیاء شاہد ان کی پوری ٹیم جو اب بھی دل سے چاہتی ہے۔چیف صاحب کبھی کبھار حال پوچھ لیتے ہیں۔دل تو نہیں کرتا تھا کہ مولانا کی اس سعی پر لکھتا جی چاہتا تھا خبریں کے ساتھ جڑی کہانیاں لکھتا ڈکٹیٹر دور میں اپنی تحریروں کی سزا پر بات کرتا ذکر کرتا عدنان شاہد کا ارشد خان قاری شکیل عنائت جاڑا شبیر گجر کا چودھری اکرم ملک محی الدین کا۔لیکن برا ہو اس سیاسی لت کا جو چھٹتی نہیں۔مولانا کی بلی تھیلے سے کیا باہر آئی اس نے اس پیارے موضوع کو دبا دیا۔ایک دن لکھوں گا۔اس بلی کی میائوں کا موسم گزر جائے۔

Engineer Iftikhar Chaudhary

Engineer Iftikhar Chaudhary

تحریر : انجینئر افتخار چودھری