ذہنی اور سیاسی معذور

Election

Election

تحریر: روہیل اکبر

ٓمیاں چنوں میں مبینہ طور پر قران پاک کی بے حرمتی کرنے والے ذہنی معذور شخص کی ہلاکت رپورٹ منظر عام پر آگئی ساتھ ہی خواتین کے اغوا کے حوالہ سے ایک اور خطرناک رپورٹ بھی آئی ہے ان دونوں رپورٹ کو بعد میں پڑھتے ہیں پہلے سیاست کے پیالے میں جو ابال آیا ہوا ہے اس پر بات کر لیتے ہیں کہ سیاسی معذور اپنے اپنے آخری پتے نکال رہے ہیں پی ٹی آئی حکومت کا آخری سال ہے اور تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اپوزیشن کی سیاسی دوکانداری بھی عروج پر ہے یہ بلکل ایسے ہی ہے جیسے عید کے دن ہر دوکاندار اپنی دوکان سجا کر گاہکوں بلخصوص بچوں کے انتظار میں ہوتا ہے اس دن بچوں اور بڑوں کے پاس پیسے ہوتے ہیں جو کھلے دل سے خرچ بھی کرتے ہیں حکومتوں کا آخری سال یعنی کہ پانچواں سال الیکشن کا سال ہوتا ہے۔

اپوزیشن چار سال کسی نہ کسی معجزے کے انتظار میں ہوتی ہے کہ حکمران گھر جائیں اورچور دروازے سے انکا نمبر بھی لگے اور اس بار ایسا نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ اب مزید صبرکرنا مشکل ہوگیا اسی لیے اپوزیشن میں شامل سبھی جماعتوں کے مالکان نے اپنے اپنے ہول سیل گوداموں کے گیٹ کھول دیے جس کے بعد خریدو فروخت کی چھوٹی چھوٹی پرچون کی دوکانیں بھی کھل گئی یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جسکے انتظار میں حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین ہوتے ہیں جو اس پورے عرصہ میں اپنے الیکشن کے اخراجات بھی پورے نہیں کرپاتے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کو لوٹتے ہیں اور اپوزیشن کے اراکین اپنا ایک فارورڈ گروپ بنا کر اندر کھاتے حکومت سے مراعات لیتے ہیں۔

اس طرح دونوں طرف کے مایوس اراکین کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اور پھر وہ اپنی ساری کسریں نکال بھی لیتے ہیں پچھلے الیکشن کے اخراجات سمیت آنے والے الیکشن کا مال پانی بھی اکٹھا کرلیتے ہیں ابھی موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ ق اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے میں سب سے زیادہ مصروف ہے پنجاب اسمبلی میں 8 منتخب اور 2مخصوص سیٹوں سمیت کل 10سیٹیں ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں چوہدری شجاعت حسین کا بیٹا چوہدری سالک حسین،چوہدری وجاہت حسین کا بیٹا چوہدری حسین الہی اور چوہدری پرویز الہی کا بیٹا چوہدری مونس الہی اور بہاولپور سے چوہدری طارق بشیر چیمہ سمیت کل 4منتخب ایم این اے اور ایک مخصو ص سیٹ کے ساتھ کل 5 اراکین بنتے ہیں جن میں سے دو وفاقی وزیر ہیں اور خود چوہدری پرویز الہی وزارت اعلی کی خواہش دل میں لیے سپیکر پنجاب اسمبلی بن گئے ان گذرے چار سالوں میں اسمبلی میں کیسے کیسے لوگوں کو بھرتی کرلیا گیا اسکی ایک لمبی تفصیل ہے تھوڑی بہت پہلے بھی لکھ چکا ہو باقی پھر کبھی سہی ایک اور بات پچھلے الیکشن میں اگر پی ٹی آئی ق لیگ کا ساتھ نہ دیتی تو چوہدری برادران کو ایک بھی سیٹ نہ ملتی اور انکی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی۔

اب آنے والے دنوں میں کیا ہونے جارہا ہے کس کی چھتری پر دانے زیادہ ہونگے اور کون کون فائدے اٹھائے گا وقت آنے پر بہت سے چہرے بے نقاب ہونگے تحریک عدم اعتماد،دھرنے اور لانگ مارچ کی سیاسی منڈیاں لگنے والی ہیں مگر ہوگا کچھ نہیں نہ وزیر اعظم گھر جائیں گے نہ حکومت ختم ہوگی اور نہ ہی سردار عثمان بزدار کہیں جارہے ہیں اب بات کرتے ہیں میاں چنوں واقعہ کہ جسکی رپورٹ میں لکھا ہوا ہے کہ مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والا شخص ذہنی معذور تھا جسے دو سو سے تین سو کے درمیان لوگوں نے لاٹھیوں،ہاکیوں سے مار مار کر قتل کردیا یکم جنوری سے اب تک قرآن پاک کی بے حرمتی کے 14واقعات ہوئے ہیں جن میں جرم کے مرتکب تیرہ افراد پولیس کی حراست میں ہیں میاں چنوں واقعہ میں پولیس بروقت پہنچ چکی تھی مگر مظاہرین زیادہ ہونے کی وجہ سے معذور شخص کو قتل ہونے سے نہیں بچایا جاسکا ڈی پی او خانیوال کا کہنا تھا کہ قرآن کی بے حرمتی کرنے والا شخص پاگل انسان تھا جو اپنا ذہنی توازن کھو چکا تھا وہ پہلے اپنے بھائی کے ساتھ کراچی میں رہتا تھا۔

چند ماہ ہوئے وہ اپنی بڑی بہن کے پاس تلمبہ کے قریب دیہات میں رہائش پذیرہوگیا ذہنی معذور شخص تین تین چار چار روز گھر سے غائب رہتا جہاں رات آتی وہاں رات گزار لیتا وقوعہ کے روز وہ سڑک کے کنارے ایک چھوٹی مسجد میں جہاں پر وہ موجود تھا وہاں قرآن کے جلے ہوئے صفحات پڑے ہوئے تھے کسی نے بھی اس شخص کو آگ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا مگر 3سو لوگوں نے اس ذہنی معذور کو مار ڈالا اس طرح کی انتہا پسندی میں صرف کم پڑھے لکھے لوگ ہی راغب نہیں ہوتے بلکہ ڈاکٹر انجینئر آئی ٹی ماہرین بھی ملوث ہیں ضروری ہے انتہا پسندی کو روکنے کے لئے کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد کرائے جائیں جس سے رواداری کو فروغ مل سکے اس سلسلے میں وزارت مذہبی امور، وزارت داخلہ اور انسانی حقوق مل کر ایک ایسا مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں جس سے معاشرے میں رواداری کو فروغ حاصل ہومذہبی دہشت گردی ایک ایسا ناسور ہے جو دن بدن پھیل رہا ہے صرف اس بات سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ فلاں فلاں کا ہاتھ ہے ہمارے نوجوانوں میں صبر اور رواداری بالکل ختم ہورہی ہے اور مذہبی ہم آہنگی کے نام پر جو تنظیمیں کام کررہی ہیں وہ صرف پیسے کے لالچ میں عہدے بیچ رہی ہیں اور خریداروں کو کسی سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف معاشرے میں اپنا مقام بلند رکھنا چاہتے ہیں۔

اسی لیے پیسے بھی خرچ کرتے ہیں آخر میں خواتین کے اغوا کی ایک رپورٹ بھی پڑھ لیں کہ ترقی کے اس جدید دور میں ہم ابھی تک کہاں کھڑے ہوئے ہیں پنجاب میں تین سالوں کے دوران خواتین کو اغوا کرنے کے 25 ہزار 99 واقعات ہوئے 2019 میں خواتین کے اغوا کے 6 ہزار 571 مقدمات درج ہوئے 2020 میں 8 ہزار 129 اور 2021 میں خواتین کے اغوا کے 10 ہزار 399 مقدمات درج ہوئے ہیں تین سالوں کے دوران خواتین کے اغوا کے صرف 8 مقدمات میں سزائیں ہوئی ہیں 5 ہزار 947 مقدمات ابھی زیر تفتیش ہیں جب کہ5 ہزار157 کیسز کے چالان عدالتوں میں جمع کروائے گئے ہیں 94 خواتین کو ابھی تک تلاش نہیں کیا جاسکا ہے 19 ہزار سے زائد اغوا کار بھی پولیس کو شکنجے میں ہیں یہ وہ تعداد ہے جو مقدمات درج ہونے کے بعد ہم تک پہنچی جبکہ بہت سے ایسے کیسسز بھی ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اندراج ہی نہیں ہوسکے یہ صرف ایک صوبے کی صورتحال ہے جہاں وزیر اعلی سردار عثمان بزدار نے بہت سی پرانی روایات کو ختم کرتے ہوئے مثبت تبدیلیاں کی ہیں صوبے کو خوشحالی دی اور اپوزیشن کو بھی کھ کر کھیلنے کا موقعہ دیا کسی کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں کی اور باقی صوبوں کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر