وہ وقت قریب تو نہیں؟

Rana Sanaullah

Rana Sanaullah

تحریر : شاہ بانو میر

ملک 2018 کی نسبت پہلے سے پیچھے

عوام 2018 سے زیادہ پریشان بد حال

معاشی حالت 2018 سے زیادہ دگرگوں

ایسے میں حکمت تو یہ تھی

کہ

سنبھل کر چلا جاتا

معاندانہ انداز اختیار کر کے پرسکون انداز سے ملک کو آگے بڑہایا جاتا

مگر

پاکستان کے رشتوں میں تعلقات میں جڑے ہوئے ماحول سے دور

مغربی سرد ماحول میں پلے بڑہے ہمارے وزیر اعظم

نظام کو جانتے ہیں

رشتوں کی نرمی اور رواداری سے بہت دور ہیں

یہ ان کی زندگی کا خلا ہے

وہ تعلق اور اس کے وزن کو جان نہیں پائے

یہی وجہ ہے

لحاظ اور مروت کا مطلب نہیں جانتے

خاص طور سے جہاں ان کو سامنے بے حسی سے فائدہ ملتا نظر آرہا ہو

کوئی رحم نہیں کوئی نرمی نہیں

اللہ پاک معاف کرتا ہے

اور

معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے

ہم لوگ اپنے رہنماؤں کی غلطیوں پر

بولنا گناہ سمجھتے ہیں

نتیجہ ملک میں عوامی نہیں

ذاتی نظام ہر دور میں سامنے آجاتا ہے

جو ملک کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے

دیوتا کو معاف کیا جاتا رہا ہے

اس دیوتا کے نزدیک

وہ خود ہر غلطی خطا سے پاک ہے

یہی وہ دھوکہ ہے

“”جس کے مجرم ہم سب ہیں “”

رہنما کا نام جاپ جاپ کر ہم

اصل رب کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں

ان زمینی دیوتاؤں کے لئے

آج

رانا ثناء اللہ کی گرفتاری پر لکھنا

کسی ہمدردی کی بنا پر نہیں ہے

بلکہ

سب کے سوئے ہوئے ضمیر جگانے کی کوشش ہے

جو ملک کا نظام اور ادارے زندہ کرنا چاہتے تھے

آزاد دیکھنا چاہتے تھے

آج ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟

پہلے اعلان ہوتا ہے

دوسرے دن وہ سزا ہو جاتی ہے

پہلے نام بتایا جاتا ہے

دوسرے دن اسے پکڑ لیا جاتا ہے؟

کیا یہ ادارے آزاد ہیں ؟

حکومتی پکڑ دھکڑ کا

روزانہ ایک ٹریلر چلتا ہے

ایک مکمل فلم اپوزیشن کو

مکمل گرفتاریوں کی صورت کیوں نہیں کرتے؟

عوام کوہر روز

ایک نئی تہلکہ خیز خبر دے کر

پاکستان کے تمام نشریاتی اداروں کو نیا موضوع دے کر

عوام کو مصروف رکھنا ہے

وزیر اعظم پاکستان

حکومتی گھناؤنے یہ کھیل نئے نہیں

نہ یہ انداز سیاست اہل وطن کے لئے نیا ہے

نہ ہی مشکوک الزامات کا طریقہ

یہ الزام ایسے وقت میں لگایا گیا

جب اس ملک کا شریف انسان بھی سنبھل کر چل رہا ہے

ڈر کی خوف کی فضا ملک کے طول و ارض میں قائم ہے

کیسے ممکن ہے

جو انسان جانتا ہے

کہ

اسے کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے

وہ ایسی کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت کا ارتکاب کرے

اپنے سامنے موجود صیادوں کے ہوتے ہوئۓ؟

کمزور سوچ اور خود پر عدم اعتماد یہیں سے ظاہر ہوتا ہے

کہ

سابقہ آمر کی طرح

اندھا دھند غلطیوں پر غلطیاں کیے جا رہے ہو

میں نے بہت کوشش کی

کہ

عوام کی بد حالی میں کمی کیلئے

عمران خان کیلئے اچھا لکھا جائے

وہ دن رات محنت کر رہا ہے

اس سے کوئی انکار نہیں ہے

جہاں کوئی سیاسی مخالف

بھرپور انداز سے سیاست کرتا ہے

وہیں

قانونی شکنجہ گرفت کے لیے تیار

کیا پاکستان میں موجود

پی ٹی آئی کے تمام کے تمام اراکین

قرآن پر حلف دے سکتے ہیں؟

کہ

وہ ایماندار اور سو فیصد حلال کماتے ہیں

جب سب انسان ہیں اور خطا کے پُتلے ہیں

تو یہ بے

بے تکے الزامات اور معنی پکڑ دھکڑ کیوں؟

کیا ایسے سیاسی مخالفین ختم ہو سکیں گے؟

یا

مزید توانائی ملے گی؟

جس پر کوئی الزام پولیس نہ ثابت کر سکے اس کو

سازش کے ذریعے اینٹی نارکوٹکس کے ادارے کے ذریعے

سازش سے اندر کروا دو؟

کیا یہی

نحیف کمزور لرزتا کانپتا پاکستان بننا تھا ؟

پی ٹی آئی کو ایسے کمزور انداز سے

نیا پاکستان بنانا تھا

تو

بہتر تھا

پرانے پر ہی اکتفا کرتے

کچھ لوگ شاہ سے زیادہ

شاہ کے وفادار دکھائی دیتے ہیں

کیوں؟

وہ کل کہاں تھے

آج پاکستان میں ان کا نام ہے

لہٰذا

سیاسی زمینی خُدا ہو گیا

انصاف کی پکار لگانے والے

سب کے سب زبان دانتوں تلے دبائے خاموش ہیں

جھوٹ ظلم نا انصافی دیکھتے ہوئےبھی سب ہی

قوم ابراہیمؑ بنے بنے ہوئے ہیں

جن کے بت

بت کدے میں پاش پاش تھے

ابراہیمؑ کہہ رہے تھے

پوچھو

اس بڑے بت سے جو سلامت تھا

کس نےتمہارے”” الہٰ “”توڑے ہیں

وہ سب سر جھکائے شرمندہ کھڑے تھے

وہ دل میں جان چکے تھے

کہ

بھلا ہمارے ہاتھوں سے بنائے ہوئے

پتھر کے بُت بول کیسے سکتے ہیں؟

یہی کیفیت

اُن لوگوں کی ہے

جو اچھی طرح جانتے ہیں

الزام اور گرفتاری غلط ہے

لیکن

گونگے بہرے بنے ہوئے ہیں

یہ کون لوگ ہیں

وہی ہیں

جن کے لئے

ان کے جرائم خوشنما بنا کر

ان پر آسائشات کو بڑھا دیا

کہ

وہ خود کو بہترین سمجھدار اور کامیاب سمجھتے ہیں

خود پر اپنی عقل اور معاملہ فہمی پر نازاں ہوتے ہیں

اللہ پاک فرماتے ہیں

ان کے نامہ اعمال سے

ہم ان کی گرفت کریں گے

اپنی سرکشی میں اندھے ہو کر

جہنم کا ایندھن بنیں گے

ایسے لوگ پاکستان میں دکھائی دے رہے ہیں

رسمی دین پر نمائشی انداز میں مہریں لگا کر

مومنوں کی قطاروں میں شامل ہونے والے

اللہ کے قہر غضب اور پکڑ سے خود کو

کوسوں دور سمجھتے ہیں

لیکن

انہیں ڈھیل اور ڈیِل دونوں ہی سیکھنی ہوں گی

کیونکہ

معاملات احتساب کی نہیں بلکہ سیاست کی نذر ہو رہے ہیں

انصاف کا پلڑا برابری پر نظر نہیں آرہا

معاملہ مشکوک ہو جائے

تو

شک کا فائدہ مجرموں کو ملتا ہی ملتا ہے

ضمیر کو خاموش نہیں کرنا

قرآن نے فرقان کا سبق پڑھا کر

اگر لکھنے پر آمادہ کیا ہے

تو

انشاءاللہ بے لاگ حق لکھنا ہے

استاذہ کرام کی دعاؤں کے ساتھ

کلمہ حق بلند ہوتا رہے گا

اسی ملک میں بڑے بڑے آمروں کو بھاگتے دیکھا ہے

طاقت کا نشہ ہرن ہوتے ہی

تو

سر سے چھتریاں غائب ہو جاتی ہیں

معتوب عبرتِ نشاں بنا دکھائی دیتا ہے

نظام پر اپنے آپ پر بھروسہ ہے

تو

اوچھے ہتھکنڈوں کی بجائے

سیاست سے سیاست کی جنگ جیتو

یہ میرے نبی کا انداز نہیں

جو والی ریاست مدینہ تھے

اگر

موجودہ طریقہ کار کی اصلاح نہ کی گئی

اور

جبر کی سیاست کا خاتمہ نہ کیا گیا

جیتی ہوئی بازی پلٹنے کا اندیشہ

اس ملک میں ہمیشہ رہا ہے

یہاں بڑے بڑے برج الٹا دیے جاتے ہیں

سیاسی پنڈت کہتے ہیں

کہ

ایسے سیاستدان اور ان کی سیاست

پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر زندہ ہوتی ہے

پھر

سامنے موجود سیاسی قوت کو

خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہے

کہیں

یہ وقت قریب تو نہیں؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر