سدا بہار سیاست چوہدری برادران

Chaudhry Brothers

Chaudhry Brothers

تحریر : شاہ بانو میر

کچھ سال قبل کی بات ہے کہ جب پریس کلب میں تھی چوہدری پرویز الہی صاجب کی عیادت کرنے کا اتفاق ہوا

آس وقت وہ لندن ہسپتال میں داخل تھے
خاندانی لوگوں کا لب و لہجہ خواتین سے بات کرنے میں احترام چند منٹ کی گفتگو میں آج بھی یاد ہے
بیرون ملک مقیم ہونے کے باوجود پاکستان کے معاملات کو تحریر کرنے پر شکریہ بھی ادا کیا
یہ تھا مختصر سا براہ راست مطالعہ
ابھی حال ہی میں چوہدری شجاعت حسین صاحب جرمنی کے ہسپتال میں کچھ عرصی کسی عارضے کی وجہ سے داخل رہے
کئی ممتاز شخصیات کے علاوہ جزبہ ویب کے چیف ایڈیٹر اعجاز حسین پیارا صاحب بھی ان کی عیادت کرتے دکھائی دیے صحت کےمسائل پر سیاست اسی لئےنہیں کرتے
انسان بہت قیمتی ہےاپنےرشتوں خاندان کے لیے
ان کےرکھ رکھاؤ میں خاندانی روایت کاعکس نظرآتا ہے
ان کی سیاست اور نام کا بھرپور ڈنکا مسلم لیگ جب اکٹھی تھی تب خوب بجتے دیکھا
انکی نافڈ کردہ پالیسیاں آج بھی عوام کیلیے مفید ہیں
چوہدری شجاعت حسین صاحب کوملک کا عبوری وزیر اعظم ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا
جبکہ موجودہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پڑھے لکھے پنجاب کے بہترین وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں

یہ سیاست کرتے بھی ہیں اور خود کو لیے دیے رکھتے ہیں
دشمنی بد لحاظی کی سیاست کرتےانکو نہیں دیکھا

اپنے آپ کوموجودہ سیاستدانوں کیطرح جبرا لوگوں کے ذہنوں پر سوار نہیں کرتے
یہی وہ عقدہ ہے جو وا ہوتا ہے جب
ملک کسی بڑےبحران میں گھر جائے
اس وقت حکومت کوئی بھی ہو
پیچیدہ گتھی سلجھانے کے لیے انہی کے پاس سب آتے ہیں
ان کاتدبر برداشت
اور معتبر انداز کی وجہ سے انہیں افہام و تفہیم سے ملک کو بحران سے نکالبے کے لیے سامنے لایا جاتا ہے
اس لیے کہ ان کا احترام اور یقین ہر جانب ہے
یہ سوال اکثر میرے ذہن میں آتا تھا
مجھے جواب موجودہ دور میں ملا

شکریہ
جس نے مجھے بتایا
زندگی میں سیاست ان کے لیے رشتوں سے خاندان کے نام سے بڑھ کر ہے
اللہ نے زمین بے حساب عطا کی ہو ملک اور بیرون ملک کاروبار کی صورت انعامات دیے ہوں
ٹو ایسے لوگوں کا جینا مرنا سیاست نہیں
ایسے م
خاندانی سیاستدان سیاست کو ملک کی خدمت کےلیے کرناچاہتے ہیں
خاندان کا جدی پشتی نظام ان کے ہر ودم اور زبان سے نکلے ہر حرف کو پہلے تولتا ہے
پھر ادائیگی ہوتی ہے

بھاری پانی کی گاگر کبھی تیز چلنے نہیں دیتی

بالکل اسی طرح رشتوں کا وزن اپنے خاندان میں بڑے پن کا احساس چوہدری برادران کو سوچ سمجھ کر سیاست میں رکھتاہے
اعلی حسب نسب ان کا شہر میں اونچا شملہ باپ دادا کی محنتوں سےبنایا مقام اب اس کے یہ محافظ ہیں
ملک بھر میں ان کی نیک نامی ان کو سیاست میں عام جوشیلا جھگڑالو سیاستدان نہیں بننے دیتی
سیاست کو کرتے ہیں لیکن اپنے تمام تحفظات کو ساتھ لے کر
5اگست کشمیر کی تاریخ کا سیاہ دن
ایسے میں جب پاکستان کی حکومت کو آگے بڑھ کر منت سماجت بھی کرنی پڑتی تو اپوزیشن کی کرتے
ملک ایک آواز ہوتا تو اثر یقینی تھا
افسوس انا کے خول نہیں اتارے گئے
کشمیر پر صرف ہیڈ لائنز سنتے رہے اب وہ بھی دس منٹ بعد کشمیر بیان کرتی سقوط کشمیر کا غم کیسے منائیں ٹی وی پر وہ موم بتی ساڑہی والی تمام آنٹیاں نجانے کہاں گم ہو گئیں کشمیر کے معاملے میں دکھائی نہیں دےرہیں
اتنے نازک حالات میں سال سے پریکٹس کرتے اور کامیاب ملین مارچ کرتے فضل الرحمن کا عمران خان مذاق اڑاتے رہے
کہ ہنسی اس وقت حیرت میں بدلی
وہ لاکھوں پر امن ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد آ پہنچے اور وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ کیا
حکومت وقت کی ہر ٹیم ہمیشہ کی طرح بے وقعت غیر سنجیدہ قرار دی گئی
اور
ہر روز ملک کوپہنچنے والے نقصان سے مزید بچنے کے لیے دانشمند سنجیدہ مدبر اور معتبر افراد تلاش کیے گئے
تو
حکومتی حلیف چوہدری برادران۔ کے نام قرعہ نکلا
مذاکرات جس عمدگی سے ہوئے
کوئی شور نہیں ہوا کوئی اپنی تعریفوں کے پل نہیں باندھے اور
دھرنا اسلام آباد سے ختم ہوا
اب ملک کے مختلف حصوں میں صبح سے رات تک ہے
سوچیں
اگر چوہدری برادران کے لہجے کا سکون مذاکرات میں تحمل صبر حکمت نہ ہوتی تو آتش فشاں تو پھٹنے کو تیار تھا
الحمد للہ
پاکستان کے تین بار کے وزیر اعظم کے علاج میں جس ودر بے حس اور نا تجربہ کر سیاسی نوزائیدہ سوچوں نے تباہی مچائی ہے

عمران خان کی بجائے وہاں بھی چوہدری برادران کے نام انسانیت اور جزبہ خیر سگالی کے حوالے سے محفوظ ہو گئے
ایک عجیب بات پتہ چلی کہ
آپ پی ٹی آئی کے ہیں
پارٹی اور رہنما سیاسی انتقام میں غیر انسانی قدم اٹھا کر
ملک پارٹی قوم کو تباہی کی طرف جا رہے ہوں
تو
ایسے میں چوہدری برادران تو ببانگ دہل انکی غلطی کی نشاندہی کر سکتے ہیں
لیکن
میں لکھوں تو وفاداری پر سوال اٹھا دیا جاتا ہے
کیا پی ٹی آئی میں شمولیت کے وقت کوئی فارم تھا
جہاں میں نے یہ سائن کیے ہوں کہ
حق پر نہ ہو
تو
باطل پر بھی ساتھ دینا ہے
اللہ کے ہاں پیشی حتمی ہے

قرآن حدیث کی کلاسسزمیں
حق بات کی تلقین کیسےکر سکتی ہوں
اگر
حق پر قائم خود نہ ہوئی
ان کیوجہ سےاسلام آباد سےدھرنا ختم ہوا
کیونکہ
ذاتیات طنز نہیں کرتے
مخالفین سے رابطہ کرتےہیں
تو بات ملک کے حق کی کرتے ہیں
ان سے سیکھا
کہ دور کتنا ہی سیاسی بدلحاظی کا کیوں نہ ہو
یہ ملک و قوم کو مخلصانہ کوششوں سے ہمیشہ باہر لے آتے ہیں
بحران سے
عقل
حکمت
تدبر
عاجزی
نکالتی ہے
دولت ہو یا حکومت جس نے رعونت اختیار کی
وہ صاحب اختیار ہوتے ہوئے بھی مسترد ہوا خسارے میں رہا
جس نے چوہدری برادران سے
معاملہ فہمی عزت عاجزی سیکھ لی
وہ سیاست کی کامیابی کا راز پاگیا
آن کے لیے
شکریہ حکومت بھی کہتی ہے
اور
زندگی کی بقا کی جنگ لڑنے والے بھی
مشکور دکھائی دیتے ہیں
ہر طرف سے داد وتحسین مل رہی ہے
ایسی سیاست کی عمر بہت طویل ہے
جو خاندانی شملے کو سیاست کی نذر نہیں کرتے
اپنی دانش کی اہمیت ماحول سازگار بناکر خود کو اپنی سیاست کو منواتے ہیں
بر وقت تناؤ کی فضاکو مفاہمتی ماحول میں بدل کر سدا بہار سیاست کرتےہیں
آج حکومت کوان جیسےمعتدل دور اندیش معاملہ فہم سیاست دانوں کی بہت ضرورت ہے
جو وقار تحمل اور سکون سے ملک کو مشکلات سے نکالنے کا ہنر جانتے ہیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر