ہماری سیاست میں بھانڈ

Politics

Politics

تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم

ایک زمانہ تھا کہ ہمارے اسٹیج ڈراموں میں جگتیں اور فحش مکالمے بہت دیکھے جاتے تھے۔ ڈراموں میں عریانی ڈانس نہ ہوں یا گندے جملے نہ ہوں تو ڈرامہ ناکام سمجھا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے عظیم فنکار بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔ جن میں محمد قوی، افضا ل احمد اور سہیل احمد جیسے شہرہ آفاق فنکار شامل تھے۔ ناصر ادیب، بشیر نیاز، پرویز کلیم اورعرفان کھوسٹ جیسے ڈرامے لکھنے اور بنانے والے بھی نظروں سے غائب ہوگئے۔ مگر پھر عوام کو سمجھ آئ کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو خراب کر رہے ہیں۔ ان فنکاروں نے ٹی وی پروگرامز میں صاف ستھرا کام شروع کیا اور روٹی روزی کمانے لگے۔ مگرآج کل ان میراثیوں کی جگہ ہمارے چند سیاست دانوں نے پکڑی ہوئ ہے۔ جن میں سب سے بڑا بھانڈ شیخ رشید ہے جو کہ انتہائ شرمناک انداز میں بیانات دیتے وقت یہ نہی سوچتا کہ اس طرح کے بھدے بیانات سے ہمارے سیاست دانوں اور عسکری اداروں کے درمیان کشیدگی بڑھے گی جس کا نقصان ریاست کا نقصان ہے۔ میرا پیپلزپارٹی سے دور کا بھی تعلق نہی ہے مگر پھر بھی اس شیدے ٹلی کے بلاول بھٹو کے حوالے سے زومعنی جملے قطئ طور پر بھی ہمارے معاشرے کی عکاسی نہی کرتے۔ میں حیران ہوں کہ ہمارا عزت دار معاشرہ اس شخص کو کیسے برداشت کرتا ہے۔

ٹی وی ٹالک شوز میں ایسی ایس گھٹیا باتیں سننے مین ملتی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ ہم کتنے منافق ہیں۔ مانتا ہوں کہ ماضی میں اگر سیاست دانوں سے غلطیاں ہوئ ہیں تو عدالتوں نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت بہت سی غلطیاں کی ہیں اسی طرح فوج نے مارشل لا کی صورت میں حکومتوں کو کھڈے لائن لگا کر اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ۔ اس وقت جو تماشہ ہورہا ہے اس سے نہ صرف پاکستان کمزور ہورہا ہے بلکہ معاشی اور اندرونی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ ہم سنتے تھے کہ عمران خان کے دور میں لوگ یورپ اور مشرق وسطیٰ کو چھوڑکر پاکستان آ کر کام کرنا پسند کریں گے۔ مگر وہ سب جھوٹ تھا۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا گیا مگر ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔ اس وقت ہمیں کوئ بھی ادارہ سنجیدہ نظر نہی آرہا ہے۔ جو دوائ سو روپئے کی تھی وہ تین سو چونسٹھ روپیئے میں بھی مشکل سے مل رہی ہے۔ چینی، آٹا، دوائیاں ، بجلی، گیس سب غائب ہے۔ عمران خان بہت بری طرح سے فیل ہوچکا ہے۔

آج کا دور وہ دور ہے جسے تاریخ میں سیاہ دور کے طور پر لکھا جائے گا۔ اس دور میں میڈیا کو جن زنجیروں میں باندھا گیا ہے اس طرح تو ڈکٹیٹرز کے دور میں نہی دیکھا گیا۔ معروف صحافی، دانشوراور ہراس شخص پر مقدمات بنائے گئے ہیں جو حکومت پر تنقید کرتا ہے شکیل الرحمان کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ چھ ماہ سے زائد ہوچکا ہے کوئ الزام ثابت نہ ہوسکا مگر ابھی بھی وہ پابند سلاسل ہے۔ معزز ججزکے خلاف بھی مقدمات بنائے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شہباز گل کو صرف اس لئے تنخواہ ملتی ہے کہ وہ کچھ نہ کریں؟۔ اور فیاض چوہان جیسے بھانڈ تاریخ کو مسخ کرہے ہیں۔ شیخ رشید کو معلوم ہے کہ اگر صاف شفاف ایلیکش ہوئے تو کوئ ان کو چپڑاسی بھی نہی رکھے گا اسی لئے اپنی وزارت کو بہتر بنانے کے بجائے اداروں کی چمچہ گیری کر کے میڈیا کے سامنے رہنا چاہتے ہیں۔

ان کی وزارت میں ایک سو تیس حادثے ہوچکے ہیں جن میں دو سو سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ اگر فوج محب وطن ہے تو اپوزیشن کیسے غدار وطن ہے۔ اور جو بیانات نواز شریف یا مریم نواز نے دیےے ہیں کیا اس طرح کی باتیں عمران خان نے نہی کی؟۔ ایمپائیر کی انگلی کا زکر عمران خان نے کرکے فوج کو سیاست میں شامل کرنے کا اشارہ دیا۔ چند سیاستانوں نے فوج سے ملاقات کی اگر یہ سیاست دانوں کی غلطی ہے تو فوج نے کیوں ملاقات کی؟ پھر تو دونوں ایک ہی غلطی کے مرتکب ہوئے۔ اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئ کردار نہی ہے۔ اس میں کوئ شک نہی ہے کہ فوج ہمارا ادارہ ہے ہم سب پاکستانی فوج کی قربانئیوں کا اعتراف کرتے ہیں ان کی قدر کرتے ہیں۔ مگر اسی فوج کے چند افسر اپنے حلف سے باہر بھی نکلتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کو کسی آمر کی پیداوار کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

نواز شریف کو ضیاالحق کی پیداوار کہہ کر گالی دی جاتی ہے مگریہ بھول جاتے ہیں کہ اگر نواز شریف غلط ہے تو ضیا الحق بھی غلط ہے کیوں اس نے پیپلزپارٹی کا سحر توڑنے کے لئے یہ چال چلی۔ ائرمارشل اضغر خان کیس کو دیکھیں۔ پھرمشرف نے ن لیگ میں ق لیگ بنائ اور پیپلزپارٹی میں پیٹریاٹ بنائ گئ۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم میں حقیقی بنائ گئ پھر پاک سر زمین پارٹی بنائ گئ۔ یہ سب پاکستان میں ہوتا ہے۔ جنرل حمید گُل نے خود اقرار کیا تھا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کی بنیاد انہوں نے ڈالی تھی۔

اسد درانی کے حوالے سے کوئ تحقیق آگے نہی بڑھی۔ اچھے اور برے لوگ ہر ادارے میں موجود ہیں۔ اس وقت یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے اور نومبر میں شفاف الیکشن کا انقاد کروایا جائے۔ اس کے ساتھ سی پیک کے منصوبے پر چین کے ساتھ تعالوقات کا مضید مضبوط بنانا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ سعودی عرب سے کوئ ناراضگی نہی ہے ہمارے وزیر خارجہ کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور وہ اس وقت ہم سے ناراض ہے۔ ورنہ ایک ارب ڈالر کی واپسی یہ کہہ کہ ہمیں اس وقت ضرورت ہے کسی لطیفے سے کم نہی ہے۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم