اک امید باقی ہے

Old Women

Old Women

تحریر : میاں جمیل احمد
اک امید باقی ہے یہ آواز ہے ان غریب عوام کی جو ہر سال نئے حکمران کو اس امید پر ووٹ دیتے ہیں کہ اس دفعہ ان کے دکھو’ں کا ازالاء کرنے والا حکمران آئے گا جوان کے بچوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرکے گا ان کے بچوں کو روزگار مہیا کرے گا ان کے جان و مال کی حفاظت کرے گا انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا اور ملک کی امن و سلامتی کے لیے جان کی بازی بھی لگا دے گا ملک کا نام روشن کرے گا کرپشن سے پاک ہوگا اور ہر مظلوم کی آوازچیخ و پکار سن کر ان کی مدد کو دوڑا چلا آئے گا۔

ملک میں مہنگائی اور چور بازاری کا خاتمہ کرے گا سب کیساتھ امتیازی سلو’ک کرے گا ہر فیصلہ میرٹ پر کرے گا ہر شخص کو اپنی زندگی گزارنے کی زادی ہوگی ان کو خوارک، تعلیم ،صحت ،تفریح کی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ووٹ لیتے وقت حکمران ان سب کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔

لیکن جب ان غریبوں کے ووٹ سے حکمران کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے وعدوں کو بھو’ل جاتے ہیں اس کہاوت کی طرح کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے حکمران غریبوں کے پیسیوں سے دنیا گومتے ہیں اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلواتے ہیں اور ان کی ہر خواہش پر پیسہ بہاتے ہیں یہ پروا کیے بغیرکہ یہ پیشہ غریبوں کے خون پسینے کی کمائی سے جمع ہوا ہے بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ ان کے بچوںکی کوئی حسرت باقی نہ رہ جائے بڑی بڑی گاڑیوں میں گومتے ہیں اور اگر کوئی غریب ان سے پیسے مانگ لے تو کہتے ہیں ملک تو پہلے ہی قرضے میں ڈوبا ہوا ہے۔

Children

Children

غریبوں کے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیںاور پیسے کی کمی کی وجہ سے اچھے تعلیم اداروں میں داخلہ نہیں ملتا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اچھی نوکری بھی حاصل نہیں کر پاتے جس کے لیے مہنگے کالج و یونیورسٹی کی ڈگری ہونی چاہیے اور کچھ تو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کالج و یونیورسٹی کا منہ بھی نہیں دیکھ پاتے اور چھوٹی سی عمر میں محنت مزدوری کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کی ساری عمر اسی میں گزر جاتی ہے اور کچھ نوجوان روزگار اور اچھی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کا راستہ تلاش کر لیتے ہیں یا پھر جرائم پیشہ اناصر کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔

غریبوں کے لیے بیماری بھی کسی آفت سے کم نہیں ہوتی کیوں کہ ان کے پاس بڑے اور مہنگے ہسپتالوں میں جانے کے لیے اتنے پیسے نہیں ہوتے اور بیماری تو ان کی کمر توڑ دیتی ہے اور اپنی زندگی کا بڑا حصہ بستر پر گزار دیتے ہیں اور پھر وہ اس دنیاکو خیر آباد کہہ کر ہمیشہ کے لیے سکون کی نیند سو جاتے ہیں غریب کے لیے تو انصاف کا حصول بھی آسان نہیں ہوتا انصاف کی تلاش میں حکمرانوں کے گھروں کے چکر لگا لگا کر ان کے جوتے ٹوٹ جاتے ہیں پھر بھی انصاف نہیں مل پاتا۔

غریب اپنے آپ سے سوال تو یوچھتا ہے کہ لاکھوں کروڑ وں روپیہ ٹیکس کی شکل میں ان کی خون پسینے کی کمائی سے وصول کیا جاتا اوراس کے بدلے میں انہیں وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا جاتا اسی ا’مید کی تلاش میں ہر بار وہ نئے حکمران کو منتخب کرتا کہ اس کی امید کا دامن نہ ٹوٹے لیکن ہر بار اسے نا ا’میدی کے سوا کچھ نہیں ملتا پھر بھی بچارا غریب بہت بہادر ہے اسے ابھی بھی امید ہے کہ کوئی حکمران ایسا آئے گاجو اپنی ذات کو چھوڑ کر ان غریوں کی ا’میدوں پر پورا ا’ترے گا۔

Mian Jamil

Mian Jamil

تحریر : میاں جمیل احمد