غربت کے باعث خودکشیاں

Lahore

Lahore

خبر ہے کہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن کے ای بلاک میں غربت کی ستائی ماں بسما نے اپنے 8 ماہ کے بیٹے اور 2 سال کی بیٹی کو قتل کر کے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا، بسما نے پولیس کو بتایا کہ اس نے پہلے 2 سالہ مناحل کو پانی میں ڈبو کر قتل کیا اور پھر اپنے 8 ماہ کے بچے محمد یوسف کا گلا دبا کر اسے بھی جان سے مار دیا۔ بسما کا کہنا تھا کہ ان کی شادی کو 4 سال ہو گئے تھے اور اس کا شوہر کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا، وہ نشے کا عادی تھا جس کی وجہ سے گھر میں فاقے رہتے تھے، روز روز کی لڑائی اور فاقوں سے تنگ آ کر یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔

مقتول بچوں کے باپ کا کہنا تھا کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا تھا اور گھر کا گزارہ بڑوں کی جانب سے دی جانے والی امداد پر ہو رہا تھا لیکن وہ بھی چند دنوں سے بند تھی جس کی وجہ سے بسما دلبرداشتہ ہو گئی اور بچوں کو جان سے مار دیا۔ ملک میں غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر مائیں اپنے ہاتھوں سے بچوں کے گلے دبا کر قتل کررہی ہیں اور حکمران یوتھ فیسٹول کی عیاشی پر کروڑوں روپے ضائع کر رہے ہیں۔ بجلی گیس اور تیل جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے عوام سخت تنگ ہیں۔

قوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان غربت میں ایشیاء میں پہلے نمبر پر آگیا ہے، غربت، مہنگائی اور بے روز گاری نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ملک میں ہر طرف مایوسی اور نا امیدی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ،حکمران روز گار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے بجائے قومی اداروں کی بندر بانٹ کرکے محنت کشوں اور مزدوروں سے روز گار چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ ن حکومت کی ناکام اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں غربت ،مہنگائی اور بے روز گاری میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جس سے ترقی و خوشحالی کی منزل قریب آنے کی بجائے کوسوں میل دور چلی گئی ہے۔ مئی2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے عوام کوزرعی ،صنعتی اور معاشی انقلاب کے جوسہانے سپنے دکھائے تھے وہ ڈرائونے خواب بن گئے ہیں ، حکومت نے اپنے منشور میں بجٹ خسارا چار فیصد تک لانے، ٹیکس جی ڈی پی کے تناسب کو 9فیصد سے بڑھا کر 2018ء تک 15فیصد کرنے،افراط زر کی شرح 8یا 9فیصد تک لانے، سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کے درمیان تناسب کو 20فیصد تک لانے، صنعتی پیداوار میں 7 تا8 فیصد بڑھوتری کرنے،تما م برآمدات کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے جیسے بے شمار وعدے کئے تھے مگر حکومت آٹھ ماہ میں کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کر سکی، ہمیشہ کیلئے کشکول توڑنے دینے اور آئی ایم ایف کی غلامی کی زنجیریں کاٹ دینے کے دعوے کرنے والوں نے میگا سائز کا کشکول پکڑ لیا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں بار بار اضافہ کیا۔ جون 2013ء میں 2روپے فی لیٹر، جولائی میں 5روپے فی لیٹر،اگست میں 3روپے فی لیٹر،ستمبر میں 10روپے فی لیٹر،اکتوبر میں 4 روپے فی لیٹر اور نومبر 2013ء میں 3 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔

دسمبر 2013ء تک تقریباً 30 روپے فی لیٹر اضافہ کیاگیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ ہو گیا۔ جس میں دال مونگ کی قیمتوں میں 35 فیصد، گرم مصالحوں میں 38 فیصد،آٹا کی قیمت میں 13 فیصد، خوردنی تیل ،صابن اور دودھ وغیرہ کی قیمتوں میں 17 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔مجموعی طور پر 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آنے کے بعد گذشتہ دس سالوں کے مقابلہ میں دودھ چائے، مٹی کا تیل، بجلی، گیس، پٹرول،ڈیزل، کھادوں، سیمنٹ، فرنس آئل اور دوسری اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ 40 فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے چلی گئی جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ۔ا س مہنگائی کے طوفان میں مزید اضافہ ڈالر کے مقابلہ میںپاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایک امریکی ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی 91 روپے لانے کا دعویٰ کیا گیا لیکن یہ گرتے گرتے پاکستانی 107 روپے تک جا پہنچا۔ جس سے قرضوں کی رقوم میں بھی اضافہ ہوا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب کے قومی اسمبلی میں اپنے بیان کے مطابق اُن کی حکومت آنے کے بعد جون سے اکتوبر 2013ء تک کے پانچ ماہ کے دوران بیرونی قرضوں میں ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپیہ کی قدر کم ہونے کی وجہ سے 403 بلین روپے کا اضافہ ہوا۔

IMF

IMF

نومبر اور دسمبر کے اعداد و شمار کو لیا جائے تو یہ اضافہ 500 بلین روپے سے زیادہ ہو گا۔کشکول توڑنے اور ایڈ(مدد ) نہیں ٹریڈ (تجارت ) کانعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے 6.7ارب ڈالر کاقرضہ آئی ایم ایف سے نہایت کڑی شرائط پر لیا۔ یہ رقم قرض کی ادائیگی میں صرف ہونی ہے کیونکہ اس مالی سال میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو 8 کھرب روپے اداکرنے ہیں جوکہ ملکی جی ڈی پی (کل 26کھرب روپے ) کا 30 فیصد ہے۔ پاکستان پوری دنیا میں اُن 27 قرض دہندہ ملکوں میں سے سرفہرست ہے جسے رواں سال 2013-14 میں جی ڈی پی کا 30 فیصد قرض کی ادائیگی میں صرف کرنا ہے۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب کے قومی اسمبلی میں اپنے بیان کے مطابق 32.85ملین ڈالرکا قرض اسلامی ترقیاتی بینک سے 2.7 فیصد سود پر اور 100 ملین ڈالر کاقرض 2 فیصد شرح سودپر سعودی عرب سے منظور کروایا ہے۔ علاوہ ازیں 1.70ارب ڈالر کاقرضہ عالمی بینک سے منظورکروایا ہے جس میں سے 70 کروڑ ڈالر وصول ہوچکے ہیں۔ 40کروڑ ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک سے حاصل ہورہے ہیں۔ بنکوں کا کنسورشیم 50کروڑ ،50لاکھ ڈالر دے رہا ہے۔ مزید برآں وزیرخزانہ کے مطابق یورو بانڈ کے ذریعہ ایک ارب ڈالر ملیں گے اور اس طرح سے وزیرخزانہ صاحب فرماتے ہیں کہ زر مبادلہ کے ذخائر اگلے سال تک 15ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔

بیرونی قرضہ 76 بلین ڈالر ہوگیا ہے۔باہر سے قرض پہ قرض لیے جارہے ہیں اور اندرون ملک 6 کھرب 72ارب روپے کے نوٹ چھاپے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب کے مطابق ان میں سے 4 کھرب 66 ارب روپے کے نوٹ تبادلہ میں چھاپے گئے اور 2 کھرب 6ارب روپے کے خالص نئے نوٹ چھاپے گئے ہیں۔ حکومت نے اس قلیل عرصہ میں 750ارب روپے سٹیٹ بینک سے قرض لیا ہے۔ محدود آمدن رکھنے والے کروڑوں شہریوں کی معاشی زبوں حالی کا ازالہ کرنے اور ملکی معیشت کو ترقی دینے کیلئے حکومت کو فوری طور پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عالمی منڈی کی سطح پر لانا ہوگا۔آئی ایم ایف سے نجات حاصل کی جائے۔ بجلی و گیس کی چوری اور لائن لاسز پر سختی سے کنٹرول کیا جائے۔ معیشت کو دستاویزی شکل میں لانے کیلئے بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس میں کمی کی جائے اور آمدن و اخراجات افتراق کو ختم کیا جائے،دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ سابقہ ادوار میں کی گئی نجکاری کا آزادانہ اداروں سے تجزیہ کروایاجائے کہ وہ اپنے اعلان شدہ مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہی،ان میں کتنی شفافیت تھی۔

ملک و قوم کو کیا نقصان پہنچا اور ادارے خریدنے والوں نے معمولی دام دے کر تھوڑ ے سے عرصے میں کتنی بڑی بزنس ایمپائرز بنالیں۔ ان نتائج کو پوری قوم کے سامنے رکھا جائے اور اس سے پہلے جن 34 اداروں کی نجکاری کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس پر عمل درآمد روکا جائے۔ جلد بازی میں اٹھائے گئے اس قدم سے نہ کہ صرف قیمتی، قومی اثاثے، چند مخصوص ہاتھوں میں چلے جائیں گے بلکہ لاکھوں بے روزگار بھی ہوں گے اور چند درجن لوگ مزید کھرب پتی بن جائیں گے۔ غریب عوام کو بھی ریلیف ملنا چاہئے ورنہ ملک میں کئی بسمائیں پیدا ہوں پھر انکی بددعائوں کے نتیجہ میں حکمرانوں کا ٹھہرنا مشکل ہو جائے گا۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472