دور جدید کے مما، پاپا

Parents

Parents

دور جدید میں جہاں ہر چیز آسمان کو چھو رہی ہے۔ وہی پر نئی نسل کی خواہشات تیل، پٹرول کی قیمتوں کی طرح روز بروز بڑھتی ہی جاتیں ہیں۔ عجیب و غریب خواہشات کرتی نئی نسل تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہے۔ والدین جو اولاد کے لئے پہلی درسگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اولاد کی ایکٹوٹی سے بالکل لاتعلق ہیں۔ انہیں خبر تک نہیں کہ ہمارا بیٹا،بیٹی کیا کر رہے ہیں۔؟ان کا اُٹھنا ،بیٹھنا کیسا ہے۔ ان کی دوستیاں کس قسم کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔والدین ،اولاد کی ہر جائز اور ناجائز خواہش پوری کرے نظر آتے ہیں۔ان سے بات کی جائے تو یہی جواب ملتا ہے۔

ارے بھائی!چار دن کی زندگانی ہے۔عیش کے دن ہیں کرنے دیں۔ بچوں پر بے جا پابندیاں ٹھیک نہیں ہوتیں۔ایک وقت تھا والدین صبح سویرے اُٹھتے تھے۔خود بھی نماز ،تسبح کے پابند تھے اولاد بھی نمازی ،پرہیز گار تھی۔مگر آج کے والدین ماڈرن ہو گئے ہیں۔پھر اولاد کیوں نا ں ماڈرن بنے۔نائٹ پارٹیاں ان کا معمول ہیں۔شیشہ کلب میں وہ جاتے ہیں۔بوائے فرینڈ،گرل فرینڈ ان کے ہیں۔امی ابو کی جگہ مما،پاپا،موم،ڈیڈ نے لے لی ہے۔

مما ،پاپا بھی سر فخر سے اُٹھائے ہوئے ہیں۔ جب دیکھو !اولاد کی تعریفیں!۔ میرابیٹاانگلینڈ سے، یورپ سے پڑھ کر آیا ہے ۔کیسی انگلش بولتا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے بھائی!انگلش تو فر فر بول لیتا ہے۔ کیا نماز بھی آتی ہے۔؟

سچ تو یہ ہے کہ والدین کو فرصت ہی نہیں کہ اولاد کی ایکٹوٹی دیکھ سکیں۔بچوں کو سنبھالنے کے لئے گھر میں نوکرانی رکھ لی، فرض پورا ہو گیا۔بچے کے ہوش سنبھالتے ہی انگلش میڈیم سکول میں داخل کروایا جاتاہے، بچہ انگلش توبول لیتا ہے،مگر!مذہب سے دور بہت دور ہے۔ بچے جوان ہو گئے۔ان کی بھی اولادیں ہو گئیں۔لیکن دعائے قنوت تک نہیں آتی۔نماز جنازہ میں کیا پڑھا جاتا ہے علم تک نہیں۔کتنی شرم ناک بات ہے۔

اہل مسلم ہو کر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ قصور اپنا ہے اور ہم الزام دوسروں کودے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں کی بات ہے ایک یونی ورسٹی کا سروے کیا گیا،ایف ،ایس سی،ایم ایس سی،سٹوڈنٹ سے دعائے قنوت سنی گئی۔سو میں سے چند سٹوڈنٹ تھے جو مکمل دعائے قنوت سنا سکے۔ افسوس صداافسوس! جن کو دعائے قنوت تک نہیں آتی ۔وہ نماز کیا پڑھتے ہو ں گے۔ہمارے آقا بنی اکرم ۖ نے فرمایا! جب کسی کا باپ وصال کر جائے تو اس کے بیٹے کو چاہے کہ باپ کو خود غسل دے ،خود نماز جنازہ پڑھائے۔مگرہم نے تو کرائے کے ملاں رکھے ہوئے ہیں۔ نجانے اس نے کیا پڑھا، کیا نہیں۔؟ ہم نوٹ دے کر سرخرو ہو گئے۔

Internet

Internet

جب سے ہمارے معاشرے میں انٹر نیٹ، کیبل، موبائل فون انٹر ہوئے ہیںاسلامی تعلیمات سے ہم نے چھٹیاں لے لی ہیں۔بُرائی شوق سے کرتے ہیں اور قصے سناتے نہیں تھکتے۔اچھائی بیچاری شرم سے پانی پانی ہو کر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہو گئی ہے۔مغربی تہذیب ہماری رگوں میں خون کی طرح رچ بس گئی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ڈسکو ڈانس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔مگر افسوس ہمیں علم تک نہیں ہے کہ عشاء کی نماز میں کتنی رکعات ہیں۔؟ماں باپ نے بیٹے ،بیٹی کو بڑی بڑی گاڑیاںتو خرید کر دے دی۔محل تو تعمیر کروا دیئے۔

کیا فکر آخرت کے لئے بھی چند لمحے درس دیا۔ہر گز نہیں۔گھر میں ٹی وی،کمپیوٹر،لیپ ٹاپ تو ہیں مگر جائے نماز تک نہیں۔اولاد کو عیش و آرام تو دیا۔کیا دین کے بارے میں بھی کبھی درس دیا۔قرآن مجید حصول وبرکت کے لئے شیلف میں رکھا ہوا ہے ۔گرد جمع ہو گئی ہے ۔کس کو فکر ہے۔؟صبح اُٹھتے ہی اخبار تو پڑھتے ہیں،تلاوت کے لئے وقت نہیں ہے۔بیٹی ،باپ کے سامنے عریانی لباس زیب تن کیے ہوئے ہے،سر پہ ڈوپٹہ نہیں ہے ،اور باپ اُسے جدید فیشن کا نام دیتا ہے ۔انجام کیا ہوتا ہے؟ ،بیٹی گھر سے فرار ہو جاتی ہے۔بیٹا اپنی محبوبہ گھر لے آتا ہے۔

معاشرے میں زناکاری عام ہو گئی ہے۔لڑکیا ں گھر سے فرار ہو رہی ہیں۔ان کا ذمے دار معاشرے نہیں،بڑھتی ہوئی مہنگائی نہیں،والدین ہیں۔صرف اور صرف والدین۔ جب گناہ حد سے بڑھ جائیں تو عذاب الہی کا آنا بڑی بات نہیں۔ آج پانی بے قابو کیوں ہو رہا ہے،زلزلے کیوں آتے ہیں۔؟ زمین پھٹ رہی ہے ،آسمان آگ برسا رہا ہے۔ قتل وغارت عام ہو گئی ہے،مسلمان جانور کی طرح کٹ رہے ہیں۔پہلے زمانے میں بے گناہ قتل ہوتا تو سُرخ لال آندھیاں چل پڑتی تھیں،مگر آج ہزاروں کٹ رہے ہیں آندھیاں کیوں نہیں آتیں۔؟

ہماری اولادیں ننگے ڈانس کررہی ہیں اور ہم اُنہیں داد پہ داد دیئے جارہے ہیں۔پڑھنے کے بہانے ساری ساری رات انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرکے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ والدین ”سب ٹھیک چل رہا ہے ”کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھر میدان جنگ بنے ہوئے ہیں ،گھر فسادات کامرکز بن گئے ہیں۔نااتفاقی،ناچاقی کہ فضا نے گھر کا سکون چھین لیا ہے۔بیٹا،باپ کو قتل کر رہا ہے۔ بیٹی ماں کو مارنے پر تلی ہے۔بھائی ،بہن کی عصمت نیلام کرنے چلا ہے۔

ہم ہیں کہ معاشرے کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں ۔معاشرے کو گالیاں دے رہے ہیں ۔حالات کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔نہیں،نہیں معاشرہ آپ لوگوں سے وجود میں آتا ہے ۔اگر اب بھی والدین صحیح سمٹ چل پڑیں تووہ دن دُور نہیں جب ہماری اولادیںشراب خانے جانے کی بجائے عبادت خانے کو اپنا مسکن بنا لیں۔بیٹاباپ کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہو گا،بیٹی ماں پہ صدقے واری ہو رہی ہو گی۔والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد پر کڑی سے کڑی نگاہ رکھیں۔دین و دُنیا دونوں کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ اولاد فرمانبردار بن جائے۔دُنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔والدین فیشن کو چھوڑ کر سادگی اپنا لیں۔مغربی تہذیب کو چھوڑ کر دین محمدی پر عمل پیرا ہو جائیںتو اولاد بھی محمد بن قاسم،محمود غزنوی جیسے بہادر اور نڈر ہوجائے۔ نہیں تو نمرود،فرعون بنتے دیر نہیں لگتی۔ آیئے ہم خود اور اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیراکریں۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر:مجیداحمدجائی ملتانی
(majeed.ahmed2011@gmail.com)