پنجاب کی یونیورسٹیوں میں قرآنی تعلیم، لیکن ترجمہ کون سا؟

Students

Students

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں سماجی اور تعلیمی امور کے ماہرین سمیت کئی حلقے گورنر پنجاب کے اس حکم پر تنقید کر رہے ہیں، جس میں انہوں نے صوبے میں جامعات کے طلبہ کے لیے قرآنی ترجمے کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ترجمہ کون سا؟

حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ نوٹیفیکیشن کے مطابق جامعات کے طلبا و طالبات کے لیے اردو ترجمے کے ساتھ قرآن کے مطالعے کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے اور جو طلبہ و طالبات ایسا نہیں کریں گے، انہیں ڈگریاں جاری نہیں کی جائیں گی۔

سماجی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس حکومتی اقدام سے ملک میں فرقہ واریت کو مزید تقویت مل سکتی ہے اور مذہبی طبقات کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہو گا۔ معروف پاکستانی مرخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں اولین مسئلہ تو یہ ہے کہ ترجمہ پڑھایا کون سا جائے گا؟

وہ کہتے ہیں، ”قرآن کا بہت آسان ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد نیکیا تھا لیکن پاکستان میں مختلف مذہبی مکاتب فکر موجود ہیں۔ ان کے علما میں سے اس ترجمے پر کوئی متفق نہیں ہو گا۔ پھر مختلف مکاتب فکر کے لوگ مختلف تراجم و تفاسیر پڑھتے ہیں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ تراجم پڑھائے گا کون؟ ان کو پڑھانے کے لیے ہر فرقے کے علما کہیں گے کہ معلم ان کے فرقے کا ہونا چاہیے۔ اس طرح جامعات میں مختلف مذہبی شخصیات کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ یوں ہم دراصل یونیورسٹیوں کو بھی مذہبی مدرسے بنا دیں گے اور پھر ایسی مذہبی شخصیات سماجی علوم پر بھی فتوے دینے لگیں گی۔

ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو قرآن کا مطالعہ خود کرنا چاہیے اور ریاست کو مذہبی امور سے دور رہنا چاہیے، کیونکہ یہ تو ہر فرد کا انفرادی معاملہ ہے، ”اگر حکومت تعلیم کو واقعی بہتر بنانا چاہتی ہے تو دوکروڑ سے زائد بچے جو بنیادی تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں، انہیں تعلیم سے آراستہ کرے۔ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں اسکولوں میں بیت الخلا نہیں ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، دیواریں اور چھتیں کسی وقت بھی گر سکتی ہیں، جس سے بچوں کی ہلاکت بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت کو ان مسائل پر توجہ دینا چاہیے اور تعلیمی بجٹ کو مجموعی قومی پیداوار کے کم از کم بھی پانچ فیصد کے برابر ہونا چاہیے۔

کئی پاکستانی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہیکہ حکومت پنجاب کے علم میں ہی نہیں کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے ترجمے اور تفسیر کے نام پر پاکستانی علما کے مابین کتنے اختلافات پائے جاتے ہیں اور اس حکومتی اقدام سے ان اختلافات میں مزید شدت آئے گی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دانشور ایوب ملک نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مولانا مودودی نے قرآن کا ترجمہ کیا، جسے تفہیم قران کہا جاتا ہے۔ بریلوی علما کو اس ترجمے پر بھی اعتراض ہے، جو دیو بندی عالم اشرف تھانوی نے کیا تھا اور جس کی تفسیر مفتی شفیع نے معارف القران کے نام سے کی تھی۔

دیو بندی علما کو بریلوی عالم احمد رضا خان کے کنزالایمان نامی ترجمے پر بھی تحفظات ہیں۔ اسی طرح اہل تشیع اور اہل حدیث کے مسلم مذہبی گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھی مختلف تراجم کے حوالے سے آرا مختلف ہیں۔ ہم پہلے ہی دو طرح کی اسلامیات پڑھ رہے ہیں، جس سے ملک میں فرقہ واریت بڑھی ہے۔ اس فیصلے سے بھی بڑھے گی۔ ہمیں قرآن کا مطالعہ خود کرنا چاہیے اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔

چند مبصرین کے خیال میں پی ٹی آئی حکومت کی یہ پالیسی جنرل ضیاالحق کی ‘اسلامائزیشن کی پالیسی کا تسلسل ہے، جس سے ملک کو نقصان ہو گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے مصنف فاروق طارق کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سماجی اور تعلیمی مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا، ”جو طلبہ مذہب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، وہ اسلامیات پڑھیں۔ انہیں کس نے روکا ہے۔ لیکن فزکس، ریاضی، سائنس یا سوشل سائنسز کے طلبہ کو یہ پڑھانے کی منطق کیا ہے؟ یہ صرف ضیاالحق کی پالیسی کا تسلسل ہے، جسے کو مختلف مذہبی حلقے استعمال کریں گے۔

پاکستان میں کچھ حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ترجمے کے ساتھ ساتھ بحث بھی ہو اور علمی گفتگو کی جائے، تو اس سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ لاہور کی ایف سی کالج یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر عمار علی جان نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پہلے ہی ایسے اساتذہ کو نکالا جا رہا ہے، جو علمی گفتگو کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور دلائل کے ذریعے موجودہ معاشرتی مسائل کے حل کی بات کرتے ہیں۔ تو اس فیصلے سے یہ نہیں لگتا کہ اس کا مقصد مذہبی حوالے سے بھی علمی اور تحقیقی گفتگو کا فروغ ہے۔