سوالیہ نظریں

Suicide

Suicide

تحریر : کنول شیخ

آج گھر لوٹنے میں اسے ذرا دیر ہو گئی تھی۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی سب اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور تایا جان نے اک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا اور پوچھا کہ تم کہاں تھی اتنی دیر؟ یہ کوئی نئی بات نہ تھی، اسے اکثر ہی ایسے تھپڑ اور جملے برداشت کرنے پڑتے تھے۔ جب سے اس کے والد کا انتقال ہوا تھا تو تایا اور تائی ہی گھر کے مالک بن بیٹھے تھے۔ فرزانہ اور اس کی امی کی اس گھر میں کوئی حیثیت نہ رہی تھی۔ بلاشبہ پہلے بھی گھر میں تایا کی ہی چلتی تھی لیکن فرزانہ کے باپ کی وجہ سے اسے کوئی کچھ نہ کہتا تھا۔ اب اس کے اور اس کی امی کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ فرزانہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کرتی تھی۔

جب بھی وہ واپس آتی اس کو آتے ہی سوالیہ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تائی اسے طرح طرح کی باتیں سناتی کہ جانے وہاں نوکری ہی کرتی ہے یا نوکری کے نام پر کچھ اور۔ جب کبھی گھر لوٹنے میں دیر ہو جاتی تو بھی سوال کیے جاتے کہ کہاں تھی اتنی دیر؟ کس کے ساتھ رہی؟ فرزانہ اپنے کردار پہ اس طرح سوال اٹھائے جانے سے ٹوٹ ہی تو جاتی تھی۔ کیونکہ اس کے دل میں کوئی چور نہ تھا پھر بھی اس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ اگر اپنی دوستوں سے بھی فون پر بات کر رہی ہوتی تو بھی اسے سوالیہ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا کہ کس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی، ضرور کوئی لڑکا ہوگا۔ یہ سب سہتے سہتے وہ تھک چکی تھی۔ وہ کسی طرح اس سب سے نکلنا چاہتی تھی لیکن کیسے؟ اس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔

یہ سب سوچتے سوچتے اس کی کب آنکھ لگ گئی اسے پتہ ہی نہ چلا۔ اگلی صبح وہ اٹھی اور تیار ہو کر آفس چلی گئی۔ آفس جا کر اسے پتہ چلا کہ آج اسے ریسٹورینٹ جانا ہے کسی کلائنٹ سے کچھ کاغذات وصول کرنے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے جانا پڑا کیونکہ یہ نوکری اس کی مجبوری تھی ورنہ وہ اور اس کی امی گھر سے نکال دی جاتیں اور کوئی ٹھکانہ بھی نہ تھا۔ وہ ریسٹورینٹ چلی گئی اور کلائنٹ سے ملی۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کے تایا بھی اس ریسٹورینٹ آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فرزانہ کو دیکھ لیا تھا۔ فرزانہ اس سب سے بے خبر تھی۔

جب وہ کلائنٹ سے کاغذات پکڑنے لگی تو کچھ کاغذات نیچے گر گئے۔ وہ کاغذات اٹھانے کو نیچے جھکی اور کلائنٹ بھی اور غلطی سے کلائنٹ کا ہاتھ فرزانہ کے ہاتھ سے ٹکرا گیا۔ تایا جان نے دیکھا تو ادھر ہی اس کو ایک تھپڑ رسید کیا اور گھر لے آئے۔ آتے ہی پھر سب اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ حالانکہ فرزانہ کی اس میں کوئی غلطی نہ تھی پھر بھی وہ خاموش رہی اور تایا اس پہ تھپڑوں کی بارش کرتے رہے۔ اس کے کردار پر بہت سے جملے کسے گئے۔ اسے بد کردار، طوائف اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا گیا تھا۔ آخر اس کا صبر جواب دے گیا اور اس نے اپنی صفائی میں کچھ بولنا چاہا لیکن تایا جان نے ایک اور تھپڑ دے مارا کہ اب ہمارے سامنے زبان چلائے گی۔

تائی امی نے بھی کسر نہ چھوڑی اس کو اور اس کی امی کو برا بھلا کہنے میں۔ آج اس کی برداشت جواب دے گئی تھی۔ اس نے کسی طرح اس زلالت اور سوالوں بھری نظروں سے خود کو نکالنا چاہا۔ اسے بس اک ہی راستہ بہتر لگا اور اس نے وہی اپنا لیا۔ اس نے خودکشی کر لی۔ لوگوں کی سوالیہ نظروں نے اس کی زندگی نگل لی۔ اور ماں بیچاری جو پہلے ہی اتنا کچھ سہہ چکی تھی اپنی اکلوتی بیٹی کی خودکشی کا صدمہ برداشت نہ کر سکی اور پاگل ہو گئی۔

احباب! ہمارے معاشرے میں کتنی ہی لڑکیاں اور عورتیں ایسے ہی سوالیہ نظروں سے تنگ آ کر خود کشی کر لیتی ہیں۔ کوئی غلطی نہ ہونے کے

باوجود جب انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جائے، ان کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا جائے تو ان کو خودکشی بھی جائز لگنے لگتی ہے۔ پتہ نہیں ہماری معاشرے میں ہر غلطی کا الزام عورت پہ ہی کیوں آ جاتا ہے؟ کیوں ہمیشہ عورت کو ہی سوالیہ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیوں عورت کے کردار کو ہی مشکوک ٹھہرایا جاتا ہے؟ کیا اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی یا مردوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا؟ مانتی ہوں کچھ عورتیں ہونگی غلط مگر سب اک جیسی تو نہیں ہوتیں نا۔ خدارا ایسے اقدام نہ اٹھائیے کہ معصوم لڑکیاں بھی خود کشی پر مجبور ہو جائیں۔

Kanwal Sheikh

Kanwal Sheikh

تحریر : کنول شیخ