مہاجرین کا عالمی دن

Refugees

Refugees

وہ افراد جو جنگ، ظلم و ستم یا کسی قدرتی آفت سے بچنے کے لئے مجبوراً کسی دوسرے ملک نقل مکانی کر جائیں مہاجرین کہلاتے ہیں۔ ہجرت کر جانا کسی کی بھی ضرورت بن سکتی ہے جب اس کی زندگی یا ایمان خطرہ میں ہو۔ ہر مہاجر خاندان کی اپنی اپنی ایک الگ داستان ہوتی ہے۔ کوئی کسی مشکل کی وجہ سے تو کوئی کسی اور مصیبت سے محفوظ رہنے کے لئے اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر کسی اور جگہ رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے مہاجرین ہیں جو چاہے دوسری جگہوں پر جا کر پہلے سے ذیادہ بہتر ذندگی گزارنے لگ جائیں لیکن ان میں پھر بھی واپس اپنے گھروں میں جانے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے۔کیونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کوئی بھی اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتا۔ ہر کوئی اپنے وطن سے پیار کرتا ہے اور پردیس میں خواہ وہ جتنی دیر بھی رہے لیکن ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی گور دھرتی ماں میں ہی ہو۔

“World Refugee Day” مہاجرین کا عالمی دن ہر سال 20 جون کو دنیا بھر میں ایک سو سے ذیادہ ملکوں میں منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد 55/7کے تحت فیصلہ کیا کہ 2001 ء سے 20 جون ہر سال مہاجروں کے دن کے طور پر منایا جائیگا جس کا ایک اہم مقصد عوام کی توجہ ان لاکھوں مہاجرینوں یا پناہ گزینوں کی طرف دلوانہ ہے کہ جو مختلف وجوہات کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر ان کے ملک آئے ہیں۔او ر اس دن کو لوگوں میں سوچ پیدا کر نے کی سعی کی جاتی ہے کہ وہ ان
مہاجروںکی ضرورتوں اور ان کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔یہ دن اقوام متحدہ ، اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کا ادارہUNHCR یو نائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار رفیوجیز اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں اس دن کو خوب جذبہ سے مناتی ہیں۔ہر سال اس دن کو 100 سے زائد ممالک میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ہر سال یہ دن مختلف Theme مرکزی خیا ل کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اس تھیم کا اعلان UNHCR کرتی ہے۔

2014ء میں یہ دن جس مرکزی خیال کے ساتھ منایا جائیگا وہ یہ ہے کہ۔”1 family torn apart by war is too many”یعنی جنگ وغیرہ کی وجہ سے اگر ایک خاندان بھی بکھر جاتا ہے یا اپنے گھر بار سے محروم ہو جاتا ہے۔تو اس ایک خاندان کو تھوڑی تعداد جان کر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اسے بھی توجہ اور حقوق دینے کی ضرورت ہے۔اور یوں مہاجر بننے والا وہ صرف ایک خاندان بھی کافی ہے۔UNHCR کی حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان آج بھی دنیا میں مہاجرین کی سب سے ذیادہ تعداد رکھنے والا ملک ہے۔یوں پاکستان میں مقیم مہاجرین کی تعداد 1.6 ملین یعنی 16 لاکھ کے قریب ہے۔اور ان میں سب سے ذیادہ تعداد افغان مہاجرین کی ہے۔اس کے بعد اگر ہم اپنے ہمسایہ ممالک کا جائزہ لیں تو اس کے بعد دوسرا نمبر ایران کا آتا ہے جہاں ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب مہاجرین ہیں اور اس کے بعد چائنہ میں بھی تین لاکھ مہاجرین آباد ہیں۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں افغان مہاجرینوں کی پہلی کھیپ 1980ء کی دہائی میں شروع ہوئی تھی جب افغانستان میں سویت جنگ کا آغاز ہو تھا۔پاکستان میںلاکھوں افغان مہاجرین تیس سال سے ذیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں۔وہ یہاں کام کاج کرکے اپنی ذندگی گزار رہے ہیںاور واپس افغانستان جانا اب ان کے شائد سود مند ثابت نہ ہو کیونکہ انہوں نے اپنی ذندگیوں کا آدھے سے ذیادہ حصہ یہاں گزار لیا ہے اور ان کی اولادیں اب یہاں کے کلچر اور ماحول کی عادی ہو گئی ہیں ۔لیکن پاکستانی حکام کی طرف سے ان پر واپس لوٹ جانے بارے دباؤ ڈالا گیا ہے اور اس وجہ سے لاکھوں افغانیوں کو گرفتار کر کے ملک بد ر کر دیا گیا ہے۔NADRAکے مطابق جون

2007ء میں صرف لاہور میں سترہ ہزار رجسٹرڈ افغانی باشندے رہ رہے ہیں۔اور اسلام آباد میں یہ تعداد پچیس ہزار تھی۔ اسلام میں مہاجرین کا خاص خیال رکھنے بارے زور دیا گیا ہے۔چاہے وہ مہاجر ین غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے ساتھ غیر امتیازی سلوک رکھنے بارے ہدایت کی گئی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ” اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دو یہاں تک کہ وہ کلام الہی سن لے پھر اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچا دو ۔یہ ( رعایت ) اس لئے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے۔” ّ(سورہ توبہ آیت نمبر6)۔ اور جب اسلام پھیل رہا تھا تو اس وقت کے جو مہاجر مسلمان تھے ان کے بارے میں بھی ارشاد ہے کہ۔”اور جو ایمان لائے اورہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اورمدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔

سورہ الانفال آیت نمبر 74۔آج تمام دنیا میں مہاجرین کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔لیکن ایک اور افسوس کے ساتھ کہ یہ مسلمان خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں مہاجر نہیں بلکہ دہشتگردوں کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کی انہیں ماضی میں بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمان مہاجر کسی طرح بھی دہشت گرد نہیں بلکہ یہ تو خود دہشت گردی کا شکار ہیں اور اسی وجہ نے ہی تو انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے ۔لیکن یہ تما م صرف یہودیوں کے ہتھکنڈے استعمال کر کے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

دراصل جب تک ہمارے ملک سے طبقاتی نظام مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا تو ان امریکہ، برطانیہ جیسے ممالک کی بات تو الگ رہی ہمارے ساتھ تو ترقی پزیر ممالک بھی حسن سلوک میں ڈنڈی ماریں گے لیکن یہاں جو پارٹی دھاندلی کر کے حکومت میںآنے میں اگر کامیاب ہوہی جاتی ہے تو وہ اقتدار میں آکر بھی کرپشن کے علاوہ کوئی کام ایمانداری سے نہیں کرتی۔جہاں جس ملک کے شہری اپنے اس ملک میں رہتے ہوئے اپنے حقوق سے محروم ہوں تو وہاں مہاجرین کو ہم کیا دے سکتے ہیں۔ ؟ ذرا سوچئیں۔

Majid Amjad Samar

Majid Amjad Samar

تحریر : ماجد امجد ثمر