نمائندہ یا…….حکمران

Election

Election

الیکشن ٢٠١٣ دھوم دھڑلے سے اپنے منطقی انجام کو بخیر و خوبی پہنچا ،ان انتخابات میں عوام نے(جن میں بڑی تعداد دو پائے کیڑے مکوڑوں کے جو کروروں میں ہے ) بڑے جوش و خروش اور خوشی سے اپنے نمائندے منتخب کئے اور پھر میڈیا پر کامیاب ہونے والے نمائندوں پر تبصرے، کالم ، جن میں مشورے ، مجھے جیسے ایرے غیرے بھی ،اخباری صفحات کالے کر رہے ہیں خصوصاً شریف برادران کو مشورے دے رہے ہیں جنہوں نے موت کو بھی عبرت ناک شکست دی جو منہ لٹکائے واپس ہوئی، جبکہ بھٹو جیسا زیرک سیاست دان لٹکا دیا گیا ، اُن کا یہ کارنامہ بھی اب تاریخ کا حصہ ہے کہ کس طرح صدر فاروق لغاری سے استعفیٰ لیا ، چیف جسٹس کو بھی اور خیر یہ اب گھسی پٹی پرانی باتیں ہیں ، آج کا سوال یہ ہے کے جو لوگ عوام کی نمائندگی کا لبادہ اوڑھ کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ۔کیا وہ ووٹر سے کسی ایک تعلق کی بنا پر اُس کا حقیقی نمائندہ ہو سکتا ہے ، ؟ کیا صنعتکار مزدور کا؟ ، جاگیر دار مزارع کا اور بھٹہ مالک اپنے پتھیرے کی نمائندگی کا حق ادا کرسکتا ہے…؟ پہلے دیکھتے ہیں یہ جمہوریت کیا ہے۔

عوام کے ساتھ کیا تعلق ، چونکہ بادشاہت موروثی ہوتی ،(حالانکہ آج کی ہماری رجمہویت میں بھی موروثیت..مگر نام جمہوریت) کبھی کوئی طاقتور بادشاہ کو قتل کر کے بادشاہ بن جاتا اور پھر یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا تاآنکہ پھر کہیں کوئی بغاوت ہوتی آخر چلتے چلتے شاطر و عیار اقتدار میں آنے کے خواہشمندوں نے جمہوریت کا نظام حکومت متعارف کرایا ،اب یہ جمہوریت کیا ہے یہ بھی ایک طبقہ کی جو عوام کے ووٹ کے زریعے حکومت کرنا چاہتے ہیں کی ضرورت ہے اور دولت مندوں کا کھیل ہے ، جو پہلے کروڑوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں پھر پانچ سال میں مع منافع حاصل کرتے ہیں ، یہ مدت تین برس بھی ہو سکتی ہے مگر تین برس میں اِن نمائندوں کا گھر پورا نہیں
ہوتا تاریخ پر نظر دوڑائیں ایک ہی طبقہ ،جسے، اشرافیہ، روسائ، جاگیردار، سرمایہ دار منظر
پر نظر آتے ہیں ،جو وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق ایک جماعت سے دوسری اور پھر تیسری میں جاتے نظر آئیں گے ، اُنہیں نمائندگی چاہئے اِس کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں،نصف صدی قبل تک دو ہی طبقے، غریب اور امیر نظر آتے ہیں۔

Patients Hospital

Patients Hospital

پھر رفتہ رفتہ ایک تیسرا طبقہ جسے مڈل کلاس کہا جا رہا بھی منظر پر آیا جو تیزی سے خود کو حکمرانوں کی صف میں شامل کر گیا ، پانچویں عشرے تک کی تاریخ اس سچ کی گواہ ہے اب یہ مڈل کلاس یا درمیانہ طبقہ کی اسطلاح بے سود ۔ اور اب ایک اور لوئر مڈل کلاس متعارف ہو چکی ہے وہ بھی حکمران طبقہ میں اپنا مقام بنا رہی ہے چھٹے عشرے تک کے حالات کا مطالع کیا جائے تو آج کی نسبت ہر سو ہر طرح کا امن و سکون تھا اِس کی مثال بڑی واضح ہے پی آر ٹی سی اور ریلوے عوام کی خدمت کرنے میں بڑ ا فعال کردار ادا کر رہے تھے سرکاری ہسپتالوں میں ایک نمبر دوائیں، مریض کو وہ کھانا مفت میں ملتا گھر میں جس کا تصور بھی نہیں تھا ، جی ٹی ایس تو ١٩٩٧ ، میں بند کر دی گئی تھی ، ریلوے پر نزع کا عالم ہے رہے ہسپتال تو وہاں ایک نمبر پاکستانیوں کو بھی ایک نمبر دوا نہیں ملتی وہ بھی علاج کے لئے لندن اور امریکہ کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ، رہے غریب تو انہیں موت اسانی سے مل جاتی ہے۔

دوا نہیں اتخاب سے قبل ووٹر کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ سابق کرپٹ حکمرانوں کو مسترد کرکے دیانت دار حکمران منتخب کئے جائیں ،عوام کو دئے گئے اس مشورہ کی خاص بات یہ ہے کہ کہنے والا ، خود کو کرپٹ حکمرانوں میں شمار نہیں کرتا بلکہ وہ کہہ رہا کہ دیانت دار میں ہوں .. لیکن سچ کیا ہے کیا واقعی جو نمائندہ منتخب کیا، جسے ووٹ دیا کیا اِس کی قبیل سے ہے ؟ …، یا پھر ایسے لوگوں کو منتخب کیا جو اُس پر حکومت کریں گے اور پانچ برس تک اُس کا استحصال کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھریں گے ؟ نمائندے اور حکمران میں فرق ہوتا ہے جس کی آج تک وضاحت نہیں کی گئی، الیکشن میں بہت بڑی تعداد، جن میں میاں نواز شریف، میا ں شہباز شریف ، عمران خان، بھی شریک تھے
کامیابی کے بعد صرف میاں نواز شریف کو دنیا بھر کے حکمرانوں کی طرف سے مبارک باد کے پیغامات موصول ہوئے ، حکمران حکمران ہی کو پیغام بھیجتا ہے کسی عام کامیاب ممبر اسمبلی کو نہیں ، میاں صاحب کو پیغامات کا مطلب یہی کہ وہ پاکستان کے حکمران ہیں انہیں حکومت کرنا ہے۔

Mian Nawaz Sharif

Mian Nawaz Sharif

اب سوال پیدا ہو تا ہے میاں صاحب کس کے نمائندے ہیں ،کیونکہ جنہوں نے انہیں اپنا نمائندہ ہونے کے لئے ووٹ دیا اب وہ پانچ برس تک میاں صاحب کو اپنے درمیان کبھی نہیں پائیں گے ، تو پھر کیونکر میاں صاحب اُن کا نمائندہ ہوأ ، میاں شہباز شریف میرے حلقے سے صوبائی اور قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے میں نے انہیں اپنے حلقے میں نہیں دیکھا ،جبکہ وہ ووٹ کا طلبگار تھا ، اور اب منتخب ہونے کے بعد تو وہ پنجاب کے حاکم بن گئے اب میں انہیں کیونکر دیکھ سکوں گا ؟ پھر میرا اُن کے ساتھ کیا تعلق و رشتہ وہ کیونکر میرا نمائندہ ہو سکتا ہے ۔ نمائندہ تو اپنے ووٹر کی قبیل سے ہو ،جو اُن کے دکھ درد کا ہمہ وقت ساتھی بھی اُن میں سے ہو.. ، اِن انتخابت میں میڈیا نے بھر پور طریقے سے ان آنے والے حکمرانوں کے لئے ووٹر کو تیار کیا نا کہ نمائندوں کے لئے … گوکہ الیکشن کمیشن کے مطابق ،صوبائی اسمبلی کے لئے ١٠ لاکھ اور قومی اسمبلی کے لئے ١٥،لاکھ تک الیکشن مہم پر اخراجات کی حد مقرر کی تھی،مگر کہا یہ جاتاہے کے میڈیا مہم کے زریعہ کروڑوں خرچ کئے گئے۔

اب کسی ممبر اسمبلی نے کروڑ ٢ کروڑ محض ممبر اسمبلی کہلانے کے لئے خرچ کئے ..؟ اور کیا واقعی ووٹر نے اپنے نمائندے منتخب کئے یا حکمران منتخب کئے ؟ اِس میں اب کوئی شک نہیں کے کہ نمائندے اور حکمران میں فرق ہوتا ہے ہم نے نمائندے نہیں اپنے لئے حکمران چنے ہیں ، جو ہمارے ساتھ نمائندوں جیسا نہیں حکمرانوں جیسا سلوک کریں گے اِن انتخابات کی خاص بات، دائیں بازوں نے واضح اکثریت حاصل کی ہے، جو ایک خاص اشارہ بھی ، سمجھنے والوں کے لئے…جو قوتیں مخالف تھیں خاموشی سے خیر مقدم کیا۔
تحریر : بدر سرحدی